لالاصدیق: گزشتہ کالم کے حوالے سے ایک وضاحت

Posted by & filed under اہم خبریں.

تحریر، ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ ہم اپناخیال دوسروں تک پہنچانے کے لیے تقریر و تحریر کا سہارا لیتے ہیں۔ چوں کہ بنیادی مقصد ابلاغ ہے، اس لیے تحریر جس قدر سہل ہو گی، اتنا ہی رواں اور آسان انداز میں قاری تک پہنچنے گی۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ تحریر عدم ابلاغ کا شکار ہو جاتی ہے۔

وادی بولان کی صحافت کے نئے رنگ

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

تحریر انسانی ارتقا کی اہم ترین ایجادات میں سے ہے، شاید اسی لیے جن خطوں نے جس قدر تاخیر سے اسے اپنایا، وہ سماجی ارتقا میں اسی قدر پیچھے رہے۔ انسانی ایجادات کو انسانی استحصال کا ذریعہ بنانے والے چالاک سام راجیوں کو مگر اس کی اہمیت، اثر اور طاقت کا خوب اندازہ تھا، سو انھوں نے جہاں جہاں قبضہ گیری کی، وہاں دیگر وسائل سمیت تحریر پہ بھی اجارہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

بلوچستان میں خواتین کا سیاسی سفر

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

’’خواتین کی عملی شمولیت کے بغیر آپ کی کوئی تحریک مکمل نہ ہوپائے گی۔‘‘ یہ فقرہ آج سے کوئی لگ بھگ سو سال قبل ہمارے سیاسی پیش امام میر یوسف عزیز مگسی نے اپنے ایک دوست کے نام خط میں تحریر کیا۔ ایک صدی گزر گئی، ہم آج تک اُن کے اِس ایک فقرے کی لاج نہ نبھا پائے۔ ریاست قلات کے اولین ایوان میں ایک بھی خاتون رکن شامل نہ تھی۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ریاست قلات میں اگلے سو برسوں میں بھی اس کا خواب تک نہ دیکھا جا سکتا تھا۔

نوجوانوں کے مسائل ، ادراک اور تدارک

Posted by & filed under خصوصی رپورٹ.

پاکستان کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔جسے کسی بھی ملک کے لیے رحمت سمجھا جا سکتا ہے۔مگر ریاست اور حکومت کی نااہلی کے باعث یہ رحمت ،زحمت بنتی چلی جا رہی ہے۔ نوجوانی کی آمد، مسائل و متعلقات سے آگاہی تو دور کی بات اس بابت سرے سے مکالمے کا ہی فقدان ہے۔ آئیے بعض حوالوں سے اس اہم موضوع کے مختلف تناظرات اور پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔

گل خان نصیر اور نوجوان

Posted by & filed under خصوصی رپورٹ.

لکھنے والا زمین پہ رہ کر لکھتا ہے، اور اہلِ زمین سے جڑا ہوتا ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ زمین اور اہلِ زمین سے لاتعلق رہ سکے۔لکھنا ، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سو،ہر لکھنے والا اپنے قاری کا تعین ضروری کرتا ہے۔قاری بنا، تحریر کی کوئی وقعت نہیں۔ تحریر جب تک قاری تک رسائی نہ رکھتی ہو، اُس بچے کی مانند ہے جو ماں کے پیٹ میں تو موجود ہو،لیکن ابھی جنم نہ لیا ہوا۔قاری کا تعین کیے بنا لکھنے والا، گم راہ ہوجاتا ہے، یا اس کا لکھا بے اثر رہ جاتا ہے۔ اس پس منظر میں گل خان کا بالخصوص اردو کلام دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے گل خان کا مخاطب و قاری صرف نوجوان ہیں۔