|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2017

اسلام آباد:چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے حکومت پر واضح کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر قومی اسمبلی میں اتفاق رائے کی سینیٹ پابند نہیں ہوگی،حکومت قومی اسمبلی کے لیڈرز کے اجلاس کو پارلیمانی اجلاس کا نام نہ دے کیونکہ اس میں سینیٹ کی نمائندگی نہیں ہے اور اگر حکومت نے یہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت شروع کر رکھی ہے تو بلاامتیاز تمام سیاسی جماعتوں کو اس مشاورت میں شریک کیا جائے۔ بدھ کو اس امر کا اظہار انہوں نے سینیٹ اجلاس میں قوم پرست حکومتی سینیٹر عثمان خان کاکڑکے نکتہ اعتراض کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کیا۔فاضل سینیٹر کا کہنا تھا کہ میڈیا میں آرہا ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کیلئے پارلیمانی مشاورت شروع کردی گئی ہے اور اس بارے میں پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس ہورہے ہیں،اسپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے یہ اجلاس طلب کیا جاتا ہے جس میں سینیٹ کی کوئی نمائندگی نہیں ہے اگر یہ پارلیمانی اجلاس ہے تو اس کی اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ دونوں کو مشترکہ طور پر صدارت کرنی چاہیے اور بلااامتیاز سینیٹ کے پارلیمانی لیڈرز کو بھی اس اجلاس میں شریک ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ وگرنہ اسے پارلیمانی اجلاس نہ کہا جائے کیونکہ پارلیمنٹ دونوں ایوانوں پر مشتمل ہے۔چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے ان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ پارلیمانی اجلاس ہے تو اس میں دونوں ایوانوں کی نمائندگی ہونی چاہیے۔انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ قومی اسمبلی کی سطح پر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو سینیٹ فوجی عدالتوں پر قومی اسمبلی کے اتفاق رائے کی پابند نہیں ہوگی۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ انہیں معلوم ہے کہ پارلیمانی اجلاس اسپیکر نہیں حکومت کی جانب سے قرار دیا جارہا ہے۔وزیرقانون و انصاف زاہد حامد نے ایوان کو بتایا کہ ابھی تو ابتدائی بات چیت ہورہی ہے اگر کسی بل پر اتفاق ہوا تو باقاعدہ طور پر وسیع ترمشاورت ہوگی۔چیئرمین سینیٹ نے وزیرقانون کو یہ بھی ہدایت کی کہ یہ بھی چیک کرکے بتائیں کہ یہ اجلاس مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کا ہورہا ہے یا قومی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈرز کا۔