|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2013

لاہور اور کراچی میں دو جید علماء کو شہید کیا گیا۔ ان میں مولانا شمس الرحمان لاہور میں اور علامہ دیدار حسین جلبانی کو کراچی میں ٹارگٹ کیا گیا۔ بظاہر اس ٹارگٹ قتل کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانا اور پاکستان میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرنا مقصود تھا۔ ان کے ردعمل میں ہزاروں لوگ ملک کے دور دراز علاقوں اور شہروں میں نکل آئے اور قتل عام کے خلاف مظاہرہ کیا۔ احتجاج کیا اور اس کی بھرپور انداز میں مذمت کی گئی جو ایک خوش آئند بات ہے کہ لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لیا اور احتجاج کے دوران امن برقرار رکھا۔ پاکستان اور عوام کے دشمن گزشتہ کئی دہائیوں سے اس کوشش میں ہیں کہ فرقہ واریت کی آگ کو پورے ملک میں پھیلائیں۔ مگر مجموعی طور پر عوام کے دشمن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ وقتی طور پر لوگ مشتعل ضرور ہوئے مگر مجموعی طور پر حالات قابو میں رہے۔ کوئٹہ، کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں ہزاروں لوگوں کو فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ جو ایک سوچی سمجھی سازش نظر آتی ہے۔ یہ کام ریاست اور اس کے اداروں کا ہے کہ ان سازشوں کا پتہ لگایا جائے۔ صحیح ملزمان اور سازشیں کرنے والوں کو نہ صرف بے نقاب کیا جائے بلکہ ان کو قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔ ہم اس بات کو جائز اور قانونی سمجھتے ہیں ان تمام جماعتوں اور مذہبی گروپوں پر پابندی عائد کی جائے جو ملک میں فرقہ واریت پھیلارہے ہیں۔ ایسے ادارے اور جماعتوں کی کوئی ضرورت نہیں جو عوام میں فرقہ واریت کی بنیاد پر نفرت پھیلاتے ہیں اور وہ عوام دشمنی کا مرتکب ہوتے ہیں یہ ریاست اور اس کے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک اور اس کے ہر حصے کو ہر طرح کی مذہبی شرپسندی سے پاک رکھیں۔ ملک میں امن و امان بحال رکھیں تاکہ مفاد پرست عناصر ریاست کی کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔ فرقہ واریت کو اس وقت زبردست فروغ ملا جب ریاست نے جہادی کلچر کی آبیاری کی اور اس کی ہمت افزائی میں ایسے اداروں کی مالی اور فوجی امداد کی۔ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہوا جس سے ملک اور قوم کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پرا۔ انہی عناصر کی بعد میں عوام دشمن قوتوں نے پشت پناہی کی جو آج ملک اور قوم کے لئے خطرہ بن گئے ہیں۔ حکومت کی جانب سے لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال پر پابندی ایک اچھا قدم ہے۔ علماء کرام مساجد اور امام بارگاہوں میں پبلک ایڈریس سسٹم استعمال کریں تاکہ آواز احاطوں میں محدود ہو اور پورے علاقے میں آواز نہ جائے سوائے جمعہ کے خطبے اور اذان کے۔ باقی تقریریں احاطے تک محدود کردی جائیں۔ دوسرے یہ کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ جماعتوں میں سے بھی گن کلچر کو ختم کیا جائے۔ ان سب لوگوں کو غیر مسلح کیا جائے جو جلوس اور جلسے کے نام پر ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہیں اور وقت ضرورت اس کو مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ یہ ان رہنماؤں اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ اس کے حامی سرعام اسلحہ کی نمائش کریں اور نہ ہی مخالفین کو مغلوب کرنے کی کوشش کریں۔ ایسے کالعدم تنظیموں کا خاتمہ ضروری ہے جو فرقہ واریت پھیلاتے ہیں تاکہ ملک کے اندر فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہو۔ ملک کے اندر استحکام ہو تاکہ عوام کے دشمن پاکستان کی ان کمزوریوں سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔