|

وقتِ اشاعت :   December 17 – 2013

پاکستان کے قیام سے قبل بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی سماجی اور معاشی طور پر انتہائی مطمئن اقوام تھیں۔ وہ تمام اعتدال پسندی کے ساتھ ساتھ قناعت پسند بھی تھے۔ کرپٹ عناصر کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دولت کو عزت کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ کرپٹ پولیس اہلکار محلے میں نگاہیں نیچی کرکے راستے سے گزرتے تھے۔ کسی شریف آدمی سے آنکھیں ملاکر بات کرنے کی جرات نہیں کرسکتے تھے۔ وجہ صرف یہ تھی کہ لوگ ایک دوسرے سے بخوبی واقف تھے ان کی خوبی اور خامیوں سے بھی واقف تھے۔ پہلی بڑی خرابی جو سندھ اور بلوچستان کے سماج میں آئی وہ ون یونٹ کا قیام تھا جس کی وجہ سے افسران خصوصاً پولیس افسران دوسرے صوبوں خصوصاً سندھ اور بلوچستان میں تعینات کئے گئے۔ چونکہ وہ اجنبی تھے مقامی سماج کے سامنے جواب دہ نہیں تھے، اس لئے انہوں نے کرپشن کی ابتداء کی۔ اڈے چلائے، جھوٹے مقدمات بنائے، لوگوں کو ناجائز ہراساں کیا، گرفتار کیا تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ رقم بٹوری جائے ۔یہ سب ترکیبیں کارگر ثابت ہوئیں اور آناً فاناً مختلف علاقوں میں قمار بازی اور منشیات کے اڈے قائم ہوئے۔ روایتی علاقوں میں چکلے قائم نہ ہوسکے مگر نئی نئی آبادیوں میں ہزاروں اڈے قائم ہوگئے۔ اس کے ساتھ ہی چوری، ڈاکہ اور دوسرے جرائم کی بھی سرپرستی پولیس اور سرکاری اہلکاروں نے کی۔ اس طرح سے روایاتی قناعت پسند اور اعتدال پسند سماج میں ’’منظم جرائم‘‘ کو زبردست طریقے سے رواج دیا گیا جو پولیس اور سرکاری اہلکاروں کے لئے مسلسل آمدنی کا ذریعہ بن گیا۔ 1980ء کی دہائی میں پولیس کے ایک سب ڈویژن میں یہ ’’غلیظ آمدنی‘‘ ماہانہ 50لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ دوسری جانب پولیس اور سرکاری اہلکاروں نے یہ پیغام سماج کو دے دیا کہ کوئی بھی غیر قانونی کام کریں مگر اس کی قیمت ضرور ادا کریں تو آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گااور نہ ہی آپ گرفتار ہونگے۔ اس میں منشیات فروشی، اسمگلنگ اور دوسرے جرائم شامل ہیں۔ پولیس اور سرکاری اہلکاروں نے ’’سیاست دانوں‘‘ کی سرپرستی حاصل کرنا شروع کی تاکہ ان کو اچھی سے اچھی پوسٹ ملے۔ ایک مرتبہ پولیس کے ایک انسپکٹر نے اپنے ایس پی کے اعزاز میں ضیافت دی جس میں پانچ وفاقی وزراء شریک ہوئے۔ ان سب کا تعلق پنجاب سے تھا۔ ایس پی تمام زندگی اس انسپکٹر کی خیریت ہی معلوم کرتے رہے۔ کرپشن کی ایک بڑی وجہ بے خانماں لوگ یا uprooted peopleتھے جو بے یقینی کی صورت حال کا سامنا کررہے تھے۔ وہ اپنے اور اپنے اولاد کے مستقبل سے پریشان تھے چونکہ ان میں روایتی اقوام کے اعتماد کا فقدان تھا اس لئے سب سے زیادہ کرپشن انہی لوگوں نے کیا۔ دوسروں کی دولت اور پراپرٹی ہتھیالی، گھروں پر قبضے کئے، اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور تجارت میں بھی خیانت کی جو روایتی اقوام اور سماج میں صدیوں سے ناپید تھی۔ اس طرح سے سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال سے آج ملک ایک سنگین بحران میں گرگیا ہے۔ تحریک پاکستان اور ملک کے ابتدائی دور میں گجراتی لوگ ہی ارب پتی تھے۔ انہی لوگوں نے پاکستان کی تحریک کو امداد فراہم کی اور پاکستان وجود میں آگیا۔ چند سالوں بعد گجراتی ارب پتی کارخانے داروں کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ وہ ملک کو اربوں روپے کا ٹیکس دیتے ہیں مگر ان کا اثر و رسوخ کسی ادنیٰ افسرتک بھی نہیں ہے ۔دوسرے الفاظ میں ریاست کی پالیسی سازی میں ان کا عمل دخل نہیں ہے یعنی وہ سرکاری اختیارات استعمال نہیں کرسکتے۔ آج کراچی میں چند ایک ارب پتی موجود ہیں مگر پنجاب میں گزشتہ 30سالوں میں لاکھوں کی تعداد میں ارب پتی وجود میں آئے ہیں۔ وہ صرف سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنا پر وجود میں آئے ہیں ۔مسلم لیگ کا صوبائی یا قومی اسمبلی کا ٹکٹ اس بات کی ضمانت بن چکا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں آپ ارب پتی بن جائیں گے۔ آپ کو اجازت ہوگی کہ ٹیکس، بجلی اور گیس چوری کریں۔ بے حساب منافع کمائیں اور چار سال میں ارب پتی بن جائیں۔ کسی سرکاری افسر کی مجال ہے کہ آپ کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے۔ لاکھوں کی تعداد میں پنجاب کے دولت مند ملک کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ وہ کسی قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں دوسری جانب 65فیصد بلوچستان کی آبادی غربت کے لکیر کے نیچے تھی، اب یہ آبادی کا فیصد 80ہے۔ 15فیصد مزید آبادی غربت کی لکیر کے نیچے جاچکی ہے۔ یہی حال سندھ اور سرائیکی بولنے والے علاقوں کا ہے۔ یہی معاشی تفریق ملک کی سالمیت اور اتحاد کے لئے زبردست خطرہ بن چکی ہے کرپشن کو کم کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ یہی نئی دولتئے حکمرانی کرتے رہیں گے۔ ریاست کو ٹیکس نہیں دیں گے چاہے کچھ ہوجائے۔ گیس اور بجلی چوری ان کا قانونی حق ہے بلکہ مقامی ایم پی اے بھی اپنے ووٹروں سے یہ کہتا ہے کہ بجلی اور گیس کی چوری کرو، کوئی تمہیں گرفتار نہیں کرے گا کیونکہ وہ اور اس کی پارٹی حاکم ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں عام آدمی بجلی اور گیس کی بڑے پیمانے پر چوری کا سوچ ہی نہیں سکتا۔ اس کی پشت پناہی پر کوئی نہیں ہے جو اس کو گرفتاری سے بچائے۔