|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2014

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ریکوڈک کے مسئلے پر بحث کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ، شور شرابا زیادہ بڑھنے پر اسپیکر کو اسمبلی ڈیکورم کو برقرار رکھنے کیلئے وزیراعلیٰ سمیت تمام ارکان کے مائیک بند کرنے پڑے۔ بعد میں حکومتی وزراء اور اپوزیشن کے سینئر ارکان کے درمیان افہام تفہیم سے اسمبلی اجلاس جاری رکھا گیا۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس اسپیکر جان محمد جمالی کی صدارت میں شروع ہوا۔ اسمبلی کے آغاز میں اجلاس میں اے این پی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے بعض ٹی وی اینکر پرسنز کے پروگراموں کا حوالہ دیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی اور وزیراعظم نواز شریف نے ریکوڈک کے منصوبے میں ملین ڈالرز کا کمیشن لیا ہے ، وزیراعلیٰ اس حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیں۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن بلوچستان کے وسائل کاسودا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دے گی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بلوچستان کے مفادات کا کبھی سودا نہیں کیا۔ ریکوڈک کا منصوبہ ان کا ذاتی نہیں بلکہ پورے صوبے کے عوام کا ہے۔ ریکوڈک منصوبے کی سودے بازی تو دور کی بات بلکہ وہ اس صوبے کے ایک پتھر کو فروخت کرنے کا بھی سوچ نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بعض ٹی وی اینکرز پر پہلے بھی الزامات عائد کئے اور گزشتہ رات بھی اس طرح کے پروگرام کئے گئے۔ بے بنیاد الزامات پر ان ٹی وی اینکرز کے خلاف عدالتی کارروائی کی جائے گی۔ ہم نے ریکوڈک نے نہیں بیچا بلکہ سابق حکومت نے گوادر اور پسنی کو فروخت کیا۔ وزیراعلیٰ کی وضاحت کے بعد اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومت کے بعض نمائندے اس منصوبے میں کمیشن لے چکی ہے اور آئندہ سولہ دسمبر کو وہ اس معاہدے پر دستخط بھی کردیں گے۔ اپوزیشن لیڈر نے اس موقع پر وزیراعلیٰ پر سنگین الزامات عائد کئے جس پر حکومتی بنچوں کے کئی ارکان بیک وقت کھڑے ہوگئے اور اپوزیشن لیڈر کے الزامات پر سخت احتجاج کیا۔ دوسری طرف اپوزیشن ارکان بھی کھڑے ہوئے اور انہوں نے حکومتی بنچوں کے ارکان کو جواب دینا چاہا۔ اس موقع پر ایوان میں شور شرابا اتنا بڑھ گیا بلکہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسپیکر کی بار بار درخواست کے باوجود صوبائی وزراء اور اپوزیشن ارکان اسمبلی خاموش نہ ہوئے جس پر اسپیکر جان محمد جمالی کو پورے ایوان کے مائیک بند کرنے پڑے۔ اسپیکر جان محمد جمالی کا کہنا تھا کہ یہ کوئی سرانان کا ہوٹل نہیں، اسمبلی اجلاس میں نظم و ضبط کا خیال رکھا جائے۔ بعد میں اپوزیشن لیڈر مولانا عبدالواسع ، صوبائی وزراء نواب ایاز جوگیزئی، عبدالرحیم زیارتوال کے درمیان مشاورت کے بعد ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کو بٹھادیا گیا اور مولانا عبدالواسع کو اپنی تقریر ترک کرنی پڑی۔