|

وقتِ اشاعت :   April 1 – 2019

کوئٹہ: سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچی اور براہوئی زبان کی ترقی وترویج کیلئے ریاست کو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنی چائیے، مقامی زبانوں میں لکھنے والے افراد کو وسائل کی عدم دستیابی کے باعث مشکلات کا سامنا ہے،آئندہ نسلوں میں کتب دوستی کو فروغ دیکر ہم اپنی شناخت سرزمین ساحل وسائل کے تحفظ کو یقینی بناسکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز کوئٹہ پریس کلب میں براہوئی ادبی سوسائٹی پاکستان کے 41 ویں یوم تاسیس کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس موقع پر 2018ء میں شائع ہونے والے کتابوں کی تقریب رونمائی کی گئی اور مختلف شعبوں میں بہترین خدمات سرانجام دینے پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، گل بنگلزئی، اسحاق سوز، اسیر عبدالقادر شاہوانی اور عید محمد کو ایوارڈ سے نواز گیا ۔

تقریب میں اسٹیج ڈرامہ اور موسیقی بھی پیش کی گئی جبکہ اس موقع پر روایتی ایشیاء کی نمائش بھی کی گئی۔ تقریب سے آغاگل،اسیر عبدالقادر شاہوانی،ڈاکٹر سلیم کرد، اسحاق سوز، عبدالقیوم بیدار، میر محمد الفت ، نور خان محمد حسنی ودیگر نے بھی خطاب کیا جبکہ اس موقع پر وحید زہیر، افضل مراد، افضل مینگل، یار جان بادینی سمیت براہوئی ادب سے تعلق رکھنے والے افراد شریک تھے۔ 

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ریاست اپنی تمام تر توانائیاں اردو زبان کی ترقی اور فروغ پر خرچ کرے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن برہوائی، بلوچی ، پشتو، سندھی ، سرائیکی سمیت دیگر مقامی زبانوں کی ترقی وترویج اور تخلیق کیلئے اقدامات اٹھانے بھی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے جس سے وہ انحراف کرکے ان قوموں کے وجود سے انکار نہیں کرسکتی۔ 

انہوں نے کہا کہ موجودہ نسل کی زبان و ادب سے بیگانگی کے باعث مقامی زبانوں میں لکھی گئیں کتابیں فروخت نہیں ہوتی حالانکہ ایک کروڑ 28 لاکھ کی آبادی والے صوبے میں ایک ہزار کتابوں کی اشاعت سے قبل ہی انہیں فروخت ہونا چائیے۔ 

انہوں نے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ اگر کتاب پر کسی کا عکس چھاپ کر اس سے مدد طلب کی جائے تو وہ ضرور مدد کریگا اگر اس کو کہا جائے کہ کتاب کی اشاعت میں مدد کریں تو وہ کبھی نہیں کریگا۔ انہوں نے کہا کہ اپنی شناخت سرزمین ساحل وسائل کے تحفظ کیلئے ہمیں اپنے بچوں کی توجہ کتاب سیکھنے اور پڑھنے پر مرکوز کرنا ہوگی نواجوان بلوچستان یونیورسٹی ، خضدار اور تربت سمیت دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریسرچ پر کام کریں۔