|

وقتِ اشاعت :   November 26 – 2019

نیشنل پارٹی کے اُس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور مسلم لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے دور حکومت میں مسلم لیگی حکومت نے جس طرح بلند وبانگ دعوے کیے، وہ آج بھی بلوچستان کے عوام کے دلوں پر نقش ہیں۔ ان کے ہی دور حکومت میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے فنڈ سے بننے والی ڈیرہ اسماعیل خان‘ ژوب روڈ سیکشن کو سی پیک مغربی روٹ کا نام دے کر جس طرح سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ‘ پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمنٰ کو ”ماموں“ بنا کر غلط بیانی کی، آج یہ بات حقیقت بن کر سامنے آرہی ہے کہ گوادر کے ساحل کی ترقی کو بلوچستان کی ترقی سے منسوب کرکے دھوکہ دیا جارہا ہے یہ سلسلہ پہلے بھی دھوکہ تھا اور اب بھی دھوکہ ہے مستقبل میں بھی دھوکہ ہی ثابت ہوگا۔

کیونکہ وفاق نے ہمیشہ چھوٹے صوبوں کے ساتھ غلط بیانی کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ جب نیشنل پارٹی اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی تو اس کے رہنما ”ماموں“ بھی بنے اور بیانات دے کر عوام کے جذبات سے بھی کھیلے،آج یہاں ان رہنماؤں کے چند بیانات ریکارڈ کی درستگی کے لئے شائع کیے جارہے ہیں۔ ان میں سرفہرست اس وقت کے وزیر مملکت برائے پورٹ اینڈ شپنگ میر حاصل خان بزنجو کے حب کے گوٹھ حاجی چھتہ خان رند میں 18جولائی 2016روزنامہ آزادی سے بات چیت پیش خدمت ہے جس میں موصوف یہ بتا رہے تھے کہ سی پیک اور گوادر منصوبوں پر مطمئن ہیں،نیشنل پارٹی کو سی پیک پروجیکٹ سے کوئی اختلاف نہیں ’پراجیکٹ سے بلوچ قوم کو نقصان نہیں بلکہ فوائد حاصل ہوں گے۔ جو قوتیں بلوچ قوم کو ترقی سے خوفزدہ کررہی ہیں انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

میر حاصل بزنجو نے (28جولائی2016ء روزنامہ آزادی) نیشنل پارٹی تربت کے سینئر رہنماؤں سے خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ گوادر میں ہونے والی ترقی سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کے لئے بھرپور تیار ہونا ہوگا۔ گوادر اور کراچی میں نمایاں فرق ہے گوادر کراچی نہیں بن سکتا، انہوں نے فرمایا کہ یہ تاثر بھی غلط ہے کہ سی پیک بلوچوں کے خلاف بہت بڑی سازش ہے،ترقی سے قومیں طاقتور اور تعلیم حاصل کرتی ہیں۔اس وقت کے وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال کی دروغ گوئی ملاحظہ فرمائیں۔بلوچستان یونیورسٹی میں ایجو کیشن کمیشن فنڈز سے تعمیر ہونے والے منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ گوادر کوئٹہ 650کلو میٹر روڈ سال رواں کے دسمبر تک مکمل ہوجائے گا۔

کوئٹہ ژوب ریل کے ذریعہ لائن بچھانے کی فزبیلٹی رپورٹ تیار کی گئی ہے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ سی پیک منصوبوں کی تبدیلی بارے جو منفی بد گمانیاں پھیلا ئی جارہی ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں بلکہ پہلے ”مغربی روٹ“ جو گوادر براستہ خضدار، کوئٹہ،ژوب، ڈیرہ اسماعیل خان پر مشتمل ہے،پہلے تعمیر ہوگی۔ جس پر ”تیزی سے کام جاری ہے“ سی پیک ایک سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ فریم ورک ہے اس سے پاکستان خصوصاً ”بلوچستان زیادہ“ مستفید ہوگا۔ لوگوں کو روزگار میسر ہو گا،بے روزگاری ختم ہوگی، گوادر میں جدید انٹر نیشنل ائیر پورٹ‘ فری ٹریڈ زون‘ پی سی ہوٹل‘ جدید ہسپتال‘ فنی ادارے‘ اور ماہی گیروں کے لئے جدید تکنیکی حالات اور عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔

چند ایک کے علاوہ وفاقی وزیر کے دعوے محض لولی پوپ ثابت ہوئے، نہ روزگار گار کے مواقع ملے‘ اور نہ ہی مغربی روٹ کے نام پر ایک کلو میٹر بلوچستان میں تعمیر کی گئی۔ روزنامہ جنگ کوئٹہ کے شمارے میں نیشنل پارٹی کے رہنما سابق ناظم خضدار آصف جمالدینی کا بیان حقیقت کو یوں عیاں کررہا ہے۔ بقول ان کے سی پیک منصوبہ پنجاب کی آبیاری و ترقی کامنصوبہ ہے۔ قومی شاہراہ خضدار ونگو سیکشن پر 2000سے شروع ہونے والا کام 17سال میں بھی مکمل نہیں کیا جا سکا۔ دسمبر 2016میں اس روڈ کی تکمیل کی باتیں کرنے والے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں، سی پیک کے پیسوں سے پنجاب میں کئی سڑکیں ایک سال میں ہی تعمیر ہوگئیں،ساحل بلوچ بلوچستان کی ملکیت ہے۔

ہونا یہ چائیے تھا کہ سی پیک میں بلوچستان کو اولیت حاصل ہوتی، یہاں کے نوجوانوں کو ہنر مند بنایا جاتا،سی پیک منصوبے کے لئے آنے والی رقم سے کم سے کم 80فیصد بلوچستان میں خرچ کیے جاتے،یہاں پر صنعتی زون بنائے جاتے مگر افسوس کہ بلوچستان کے عوام کو یکسر نظر انداز کرکے یہ تمام سہولیات پنجاب اور دیگر صوبوں کو دی جارہی ہیں۔ ان کے بقول اگر اقوام کے وسائل لوٹ کر اپنے علاقوں کو آباد کرنے کا سلسلہ اس طرح جاری رہا تو یہ عمل کسی بڑے نقصان کاپیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ روزنامہ جنگ کوئٹہ کے 30دسمبر 2016ء کے شمارے میں ایک خبر نمایاں طورپر شائع ہوئی کہ سی پیک 57کھرب کا ہوگیا۔

چین نے کوئٹہ ماس ٹرانزٹ ٹرین،پٹ فیڈر سے فراہمی آب کے لئے 40ارب روپے،بوستان اور خضدار میں انڈسٹریل زون کے قیام کی منظوری سمیت دیگر منصوبوں کی نوید سنائی گئی۔ یہ اجلاس چین میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کی قیادت میں چینی حکام سے ہوئی لیکن نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد تک نہیں ہوا۔ آج بھی یہ منصوبے صرف کاغذوں میں نظر آتے ہیں، ان منصوبوں کے نام پر بلوچستان کے عوام کے جذبات سے کھیلاگیا۔ ہمیں گوادر کی اس دلیربچی کے اس وقت کے وزیراعلیٰ اور”خادم اعلیٰ پنجاب“ سے کہہ گئے الفاظ بخوبی یاد ہیں جب اس دلیربچی نے وزیراعلیٰ خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے کہا کہ سی پیک تو بلوچستان میں ہے مگر ترقی پنجاب میں ہورہی ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب اس بچی کے سوال پر بوکھلا گئے اور ان کی شکل”کھسیانی بلی کھمبا نوچتے“ والی جیسی ہوگئی۔ کم از کم اس دلیربچی نے تو یہ سوال کر ڈالا لیکن کاش یہ سوال ہمارے سیاستدان اور بلوچ رہنما کرتے جب وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں، اس وقت وہ سر جھکا کر جی حضوری کیوں کرتے ہیں۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں ”سب اچھا ہے“ کے باشن سناتے ہیں،لیکن جب اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر کیے جاتے ہیں تو وہ اپوزیشن میں رہ کر بلوچ قوم کے ترجمان بن جاتے ہیں۔ جن مسائل پر انہیں حکومتی ایوانوں میں لب کشائی کرنی چائیے وہ وہاں سر تسلیم خم کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔

اب یہ مثال اس طرح ان پر صادق آتی ہے کہ نیشنل پارٹی کے سینیٹر میر کبیر محمد شہی کا بیان جو کہ 23نومبر2019ء کے اخبارات میں شائع ہوئی۔ ان کے بقول سی پیک کے نام پر بلوچستان کو دھوکہ دیا جارہا ہے، سی پیک کے حوالے سے ہمارے خدشات اور تحفظات آج درست ثابت ہورہے ہیں جس کی مثال این یل سی سے گوادر پورٹ کی ٹرانسپورٹ کا حالیہ معاہدہ ہے، ان کے بقول دس سالوں سے سی پیک کے نام پر بلوچستان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔

مقامی ٹرانسپوٹرز کو امید تھی کہ پورٹ کی فعالیت کے بعد انہیں روزگار کے مواقع میسر آئیں گے مگر حالیہ معاہدہ کے بعد یہ امید بھی ختم ہوچکی ہے اب بلوچ اور پشتون صرف سی پیک کی روٹ پر دوسروں کی گاڑیوں کا پنکچر لگا کر گزارہ کریں گے۔ سینیٹر موصوف کے مطابق بلوچستان کو ترقی اور بڑے میگا پراجیکٹس دینے کے دعوے تو کیے گئے مگر زمین پر کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ ایک عشرہ گزر چکا،تا حال بلوچستان میں سی پیک کا ایک بھی منصوبہ کہیں نظرنہیں آرہا جبکہ صوبائی حکومت اس تمام صورت حال پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہی ہے جو افسوسناک ہے۔

23نومبر کے اخبارات میں چینی سفیر کی یہ خبر بھی نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ سی پیک سے 75ہزار پاکستانیوں کو روزگار ملا، اس 75ہزار افراد میں بلوچستان کے کتنے لوگ شامل ہیں، یہ تفصیل کہیں بھی نظر نہیں آئے گی سوائے چند ایک لوگوں کے یا پھر گوادر کے چند افراد کے،اس طرح چینی زبان سیکھنے کے لئے پاکستان کے لگ بھگ 25ہزار طلباء چین میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یہاں بھی حقائق یہ ہیں کہ ان میں چند ایک طالب علم غالباً یہ مکران ڈویژن کے ہوں گے، کے علاوہ پور ابلوچستان محروم ہے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سی پیک کا حال سوئی گیس‘ سیندک اور ریکوڈک پراجیکٹس سے مختلف ہرگز نہیں ہوگا، اگر یہ کہاجائے کہ بلوچستان کی پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ اس کے ساحل و وسائل ہیں تو ہرگز غلط نہیں ہوگا۔ دنیاکی تمام معدنیات اور طویل ساحل رکھنے والا صوبہ آج پسماندگی ’میں عالمی ریکارڈ قائم کررہا ہے اس کی وجہ خالصتاً ہماری وفاقی حکومتیں رہی ہیں جن کوبلوچستان کے صرف وسائل اور ساحل درکارہیں بقول سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی، رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی کے‘ کہ وفاقی حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود ”الحمداللہ“ ایک چپڑاسی بھی بھرتی نہیں کر سکا ’میرے ساتھ جووعدے کیے گئے تھے وہ اب تک پورے نہیں کیے جارہے۔

میرا علاقہ سی پیک میں آتا ہے، گوادر میں گہرا سمندر نہ ہوتا تو سی پیک کا نام و نشان نہ ہوتا۔ پاکستان کو ترقی مل رہی ہے تو سی پیک کے حوالے سے، اس کا محور گوادر ہے، گوادر کے عوام ابھی تک احساس محرومی کا شکا رہیں، انہیں ملازمتیں نہیں دی جارہیں،وہ پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ ہم خوش تھے کہ جب گوادر بنے گا تو بلوچستان ترقی کرے گا،اب حال ہی میں گوادر این ایل سی کے ساتھ گوادر پورٹ اتھارٹی اور چائنیز نے معاہدہ کیا ہے جہاں آفیشل ٹرانسپورٹ اس کے حوالے کیا گیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مقامی ٹرانسپورٹرز کہاں جائیں گے۔

میں نے وزیراعظم سمیت وفاقی وزراء کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وعدہ وفا نہیں ہوا، اگر ہم اپوزیشن میں ہوتے تو کہہ سکتے تھے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں،اتحادی ہونے کے باوجود وفاقی حکومت اور وفاقی وزراء ہمارے مسائل حل کررہے ہیں اور نہ ہی وہ ان مسائل کے حل میں سنجیدہ نظر آتے ہیں، میرے حلقے کو صوبائی حکومت بھی انتقامی کاروائی کا نشانہ بنارہی ہے۔