|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2019

اسپیکر بلوچستان صوبائی اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجوکو اللہ تعالیٰ صحت کاملہ عطا فرمائے‘میں اپنے کالم میں ان کی صحت یابی کیلئے اس لیے دعا گوہوں کہ انہوں نے اپنے معدے کے علاج کیلئے بولان میڈیکل کالج اور سول ہسپتال میں اپنے داخل ہونے اور ساتھ ساتھ ان ہسپتالوں کی نا گفتہ بہ حالت پر سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے جس طرح روشنی ڈالتے ہوئے دل گرفتہ ہو کر بات چیت کی،ان کے ہسپتال میں داخل ہونے پر صوبائی وزیراعلیٰ محترم جام کمال خان عالیانی کو اپنے وزراء کی ٹیم کے ہمراہ ان کی عیادت کے بعد سول ہسپتال کے دورے کی ضرورت محسوس ہوئی غالباً اسپیکر صاحب نے ان سے ان سرکاری ہسپتالوں کی ناگفتہ بہ حالت کی بہتر ی کے لئے اقدامات کرنے کی درخواست کی ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعلیٰ موصوف نے سول ہسپتال کے مختلف شعبوں کا دورہ کرکے صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے فوری طورپر اگلے روز محکمہ صحت کے اعلیٰ افسران بشمول کوئٹہ سمیت کچلاک میں موجود مفتی محمود المیموریل ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹس ہسپتالوں کے مختلف شعبوں کے سربراہان‘ ایم ایس ڈی حکام کے علاوہ سیکرٹری خزانہ‘ سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو‘ آئی جی کوئٹہ‘ کمشنر کوئٹہ‘ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ پر مشتمل اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کی۔ بلوچستان کی تاریخ میں واحد اعلیٰ سطحی اجلاس کہلائی جا سکتی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال خان نے انتہائی غیر معمولی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت سے متعلق امور کا جائزہ لیتے لیا اور اس سے وابستہ تمام سیکرٹری صاحبان کو طلب فرمایا جہاں انہوں نے ان کے نہ صرف مسائل سنے بلکہ ان مسائل کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور ان ہسپتالوں کے فنڈز میں اضافہ کرنے کی صورت حال کا بھی سنجیدگی سے جائزہ لیا، اس موقع پر انہوں نے سیکرٹری صاحبان سے ان کی رائے طلب کی۔

اجلاس میں سنڈیمن صوبائی ہسپتال‘ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال‘ شیخ زید ہسپتال‘ بے نظیر ہسپتال‘ فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال اور محمود میموریل ہسپتال کچلاک کے بجٹ‘ ہیو من ریسورسز‘ مالی و انتظامی اختیارات،ایم ایس ڈی کے امور‘ ادویات کی دستیابی‘ اور طبی مشینری کی مرمت سمیت دیگر متعلقہ امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اجلاس میں مختلف تجاویز کا جائزہ لیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ہسپتالوں کے بجٹ میں اضافے‘میڈیکل سپرنٹنڈنٹس کے مالی وانتظامی اختیارات میں اضافے اورمحکمہ صحت میں اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی سے ان سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال کو بہتر بنایا جا سکتاہے۔

وزیراعلیٰ کے اجلاس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بات انتہائی ا ہم تھی کہ محکمہ صحت کاکام دیگر محکموں سے مختلف ہے جہاں لوگوں کی موت اورزندگی محکمہ صحت اور ان کے ہسپتالوں کی کارکردگی سے وابستہ ہے اور یقیناً اس شعبہ میں غفلت،لاپرواہی اور تسائل کی گنجائش نہیں۔ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ صوبائی حکومت صحت کے شعبہ کے لئے 22ارب روپے کی خطیر رقم مختص کر چکی ہے اس کے باوجود اگر یہ شعبہ عوام کو علاج معالجہ کی بہتر سہولتیں فراہم نہیں کر سکتی تو یہ صورت حال انتہائی افسوس ناک ہے۔ ان کا یہ اعلان کہ بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اورشیخ زید ہسپتال سریاب روڈ میں امراض قلب کا شعبہ قائم کیا جائے گا۔

صدلائق تحسین ہے کیونکہ دل کے امراض میں بے پناہ اضافہ کے سبب سول ہسپتال کا کارڈیک وارڈ اس قدر بڑا بوجھ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر سرکاری ہسپتالوں میں بھی کارڈیک شعبہ قائم کیاجائے۔یہ اعلان یقیناً اہلیان بلوچستان کیلئے انتہائی خوشی کی حامل ہے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہر پندرہ دن بعد اجلاس منعقد کرکے صحت کے امور کا جائزہ لیاجائیگا۔

یقیناً وزیراعلیٰ جام کمال خان عالیانی کے یہ اقدامات لائق تحسین ہیں کہ انہوں نے صحت کے شعبہ کی اہمیت کے پیش نظر اس جانب بھر پور توجہ دیتے ہوئے اعلیٰ سطحی میٹنگ کال کرکے تمام امور کا نہ صرف جائزہ لیا بلکہ اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے اقدامات کرتے ہوئے اہم فیصلے کیے۔یہاں پر میں ان کی خدمت میں یہ مشورہ ایک بار پھر دیتا ہوں کہ سرکاری ہسپتالوں کو آباد کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ انہیں ڈبل شفٹ کے تحت چلایاجائے۔

سینیئر ڈاکٹروں کو ڈیوٹی دینے کی جانب راغب کرنے کے لئے ان کی تنخواہوں میں مناسب حد تک اضافہ کیاجائے تاکہ ان کے پرائیویٹ کلینکوں میں پریکٹس کے رحجان کو ختم کیاجا سکے اور وہ اطمینان کے ساتھ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی سہولتیں عوام تک پہنچائیں۔سنڈیمن ہسپتال میں مریضوں کا بے پناہ رش رہتاہے ڈاکٹروں کے مشورے سے درجنوں مریضوں کو ایمبولینس گاڑیوں کے ذریعے بولان میڈیکل کمپلیکس منتقل کرکے علاج معالجہ کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ سول ہسپتال پر رش کم ہو اور بی ایم سی ہسپتال جوایک بڑا ہسپتال ہے وہاں پر یہ شعبہ اپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔

ڈبل شفت کے طورپر ڈبل ایم ایس تعینات کیے جائیں تاکہ ان سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی نہ صرف بہتر ہوبلکہ چیک اینڈ بیلنس کا سلسلہ بھی جاری رہے۔دیکھا گیا ہے کہ اکثر ڈاکٹر صاحبان ان سرکاری ہسپتالوں میں تعینات تو ہیں لیکن وہ ان ہسپتالوں میں دن کے اوقات میں یا اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں شہر کے پرائیویٹ ہسپتالوں میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، تنخواہ سرکار سے اور ڈیوٹی پرائیویٹ، یہ سرا سر عوام کے ساتھ زیادتی ہے ان کی حاضری یقینی بنانے کیلئے بائیو میٹرک حاضری کا سسٹم رائج کیاجائے، ایم ایس کے دفاتر میں ایسی مشینیں لگائی جائیں کہ انہیں ڈیوٹی فل بنایا جائے، شروع شروع میں یہ ایک درد سر تو محسوس تو ہوگا پھر آگے چل کر ڈاکٹر صاحبان اس کے عادی ہوں گے۔

علاوہ ازیں ان ہسپتالوں میں افغان مہاجرین کا بے پناہ رش رہتا ہے وزیراعلیٰ کو چائیے کہ وہ یو این ایچ سی آر سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ کرکے ان کے لئے کچلاک اور پشین کے مقامات پر الگ الگ ہسپتال قائم کرنے کی بات کرے تاکہ ان مہاجرین کو انکے اپنے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی سہولتیں حاصل ہوں،ہمارے ہسپتالوں پر ان کا رش کم ہو، سرکاری ادویات کا کوٹہ بھی متاثر نہ ہو اور کوئٹہ کی طرف منتقلی کاعمل بھی رک جائے،تب جا کر کوئٹہ کے ہسپتالوں اور سڑکوں پر رش میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں صوبائی وزیر صحت اور سیکرٹری صحت کے دفاتر بھی سنڈیمن ہسپتال اور بی ایم سی ہسپتال میں ہونے چاہئیں کہ وہ ان دفاتر میں بھی اپنی ڈیوٹیاں دیں تاکہ ان ہسپتالوں سے متعلق اہم امور کو فوری طورپر نمٹایا جا سکے اور ڈاکٹر صاحبان کو سرکاری ہسپتالوں میں ڈیوٹی کاپابند کیا جا سکے۔

ان کے دفاتر کے قیام سے یقیناً کارکردگی میں کافی حد تک بہتری آئے گی۔ سی ایم ایچ اور ایف سی ہسپتال اگر کامیابی سے چل سکتے ہیں تو ہمارے ہسپتال کیونکر نہیں چل سکتے ایک طریقہ کار اور ڈسپلن کے تحت ہر نا ممکن کو ممکن بنایاجا سکتا ہے اس کے لئے صرف اور صرف ایمانداری اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان اس صورت حال میں آنکھوں اور دلوں کو اچھے لگتے ہیں کہ وہ باریش انسان اور دیانتدار شخصیت ہیں ان کی کارکردگی پر کوئی شخص انگلی نہیں اٹھا سکتا،ہمیں توقع ہے کہ انہوں نے صحت کے شعبہ کی بہتری کے لئے جواقدامات اٹھانے کا ارادہ کیا ہے۔

اس کی نہ صرف نگرانی خود کریں گے بلکہ ایسے تاریخی اقدامات بھی کریں گے کہ لوگ انہیں شہید نواب بگٹی کی طرح یادر کھیں جو آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کی عزت و تکریم دلوں میں تا قیامت رہے گی ان کی بلوچستان اور بلوچ عوام کی خدمات سے ان کا دشمن بھی انکار نہیں کرسکتا،وہ تا قیامت دلوں پر راج کرتا رہے گا اللہ کرے جام کمال صاحب بھی اپنے اقدامات سے ہمارے دلوں پر راج کریں۔