|

وقتِ اشاعت :   July 17 – 2020

اسکا پورا وجود عجیب بیزاری میں ڈوبا ہوا تھا بہت دیر تک سردی میں تخت پہ تہنا بیھٹی وہ سوچوں میں گم رہی ڈھلاتا سورج اسکے وجود پہ بھی تاریکی کے سائے چھوڑتا جارہا تھا۔گہری سانس لے کے وہ اٹھی کیونکہ اسکے جانے کا وقت آچکا تھا اسے وہاں جانا تھا جہاں وہ نا چاہتے ہوئے بھی دن رات گزار رہی تھی جہاں وہ معاشرے کی باتوں سے گھبرا کے زبردستی باندھنے پہ مجبور کی گئی تھی معاشرے کے وہی نا ختم ہونے والے الفاظ عمر ڈھل جائے گی رنگت تو اتنی اچھی نہیں کہ تم کیڑے نکالو گی دیکھو بھلا بوڑھی ماں کے بعد کیا کروگی اکیلے عورتوں کے لیے یہ معاشرہ محفوظ نہیں کوئی سہارا مل جائے محفوظ ہوجاوگی۔

ان تمام باتوں کی زد میں ہی تو آکے وہ وہاں خود کو جوڑنے پہ مجبور ہوگئی تھی۔۔۔وہ اٹھی آئینے کے سامنے کھڑے ہوکہ تھکے تھکے ہاتھوں سے اپنے بال سنوارنے لگی ماحول میں چھائی خنکی اسکے جسم میں درد بن کر تیر رہی تھی کچھ روز قبل جو جھگڑا اس شخص نے خاہ مخواہ ڈالا تھا اس سے سر کھپا کر دماغ میں جو ٹھیس اٹھ چکی تھی اس سب کے سبب اسکا بالکل دل نہیں تھا واپس جانے کو اس نے گھر میں پھیلے سناٹے کو دیکھا۔۔کمرے میں سوئی ہوئی بوڑھی ماں کو تھوڑی دیر حسرت سے دیکھا اور تیزی سے گھر سے باہر نکل گئی۔۔۔ باہر خنکی میں اضافہ تھا سڑک سنسان تھی گھروں کی چمنیوں سے دھوئیں کے بادل اٹھتے چکراتے ادھر سے ادھر بھٹک جاتے وہ شال کو اپنے کانپتے ہوئے وجود کے گرد لپٹ کے راستہ طے کرتی گئی شاید سردی کے باعث اسے تھوڑا فاصلہ بھی طویل لگ رہا تھا اور ہر ایک اٹھتا قدم بوجھل اور طویل محسوس ہورہا تھا۔

اسکے ذہن میں پیدا ہونے والی سوچ کا جہنم بھی سردی کے احساس کو کم نہ کرسکا وہ بد دستور کانپ رہی تھی اسکی دونوں جانب گھروں کی طویل قطارے تھی۔وہ بند دروازوں کو دیکھتی سردی سے کانپتی مسلسل سوچتی آگے بڑھتی گئی۔جب سے یہ بیاہ ہوا تھا وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سوچ میں ڈوبی رہتی جیسے خیالات کا ایک جنگل تھا جس میں ہمیشہ وہ خود کو تنہا بھٹکتا پاتی۔اسکی اسی اداسی اور سوچوں کے طوفان نے اس شخص کو روز روز جھگڑوں پہ مجبور کردیا تھا پر وہ اس سے یہ کبھی نا کہہ سکی کہ تم سے بندھن میں باندھنا نا میری مرضی تھا نا خواہش تو تم کیوں مجھ سے وہ بندھن چاہتے ہو۔

جس میں تمھیں رضا کا عنصر نظر آئے وہ اسے یہ بتانے سے بھی قاصر تھی کہ یہ نکاح کہاں تھا یہ تو وہ تمام دباؤ تھے جو ہمارے معاشرے میں ہر لڑکی پہ ڈالے جاتے ہیں وہ اسے کچھ بھی بتانے سے قاصر رہی اسکی مسلسل خاموشی اس شخص کو چیخنے چلانے پہ مجبور کرتی اور کچھ روز قبل یہی چیخنا چلانا ہونے کے بعد وہ اسے اسکی اماں کے پاس چھوڑ کے گیا تھا لیکن یہ بھی کوئی حل تو نا تھا کہ جس معاشرے کے دباو میں آکے اس نے خود کو قربان کیا تھا اور اب وہی معاشرہ پھر اسے کوسے گا۔اس لیے نا چاہتے ہوئے بھی وہ اسکے گھر کی طویل مسافت طے کرتی رہی۔

خود سے ہمکلامی کرتے ہوئے اماں کی وہ بات دوبارہ کانوں میں گونج اٹھی کہ بیٹی صبر رکھو وقت سب ٹھیک کردے گا۔وہ سوچنے لگی وقت بھی کوئی معنی رکھتا ہے بھلا۔۔۔وقت کی طوالت اور اختصار صرف ایک دھوکہ ہے بعض اوقات کسی کے ساتھ پوری زندگی گزرانے کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے کہ ہم انہیں جانتے تک نہیں اور کبھی کبھی کسی کو جاننے کے لیے چند لحمے بھی بہت ہوتے ہیں اس شخص کے ساتھ اتنا عرصہ گزارنے کے باوجود بھی لگتا ہے جیسے وہ اسے جانتی تک نہیں تو وقت کا انتظار اسکے لیے بے معنی ثابت ہوا۔یہ رشتہ اسکے اندر کے ادھورے پن کو نا مٹا سکا۔

ہاں وہ ادھورا پن جو ہر عورت کے اندر ایک مرد کا ادھورا وجود ہوتا ہے پھر اس مرد کی محبت توجہ ہی اس ادھورے پن کو مکمل کرسکتی ہے جب تک اندر کے وجود کا مماثل نہ ملے تب تک ادھورا پن برقرار رہتا ہے اور اس رشتہ نے نا اسے ظاہر سے مکمل کیا نا باطن سے۔ یہ رشتہ طوفان کی لہروں میں ڈولتی ڈوبتی کشتء سا ہی تو تھا جسے بچانے کی کوشش وہ صرف معاشرے کے رنگ برنگے تھپڑوں سے بچنے کے لیے کررہی تھی اس نے گہری سانس لی اور لرزتی وجود کے ساتھ سوچنے لگی۔۔ میں شاید عام ڈگر سے ہٹ کر ہوں یا شاید بہت مشکل ہوں میرے معیارات اس معاشرے سے یکسر مختلف ہیں میرے جذبے لفظوں کا لبادہ اوڑھنے کے محتاج نہیں ہیں۔

مجھ میں اور باہر کے ماحول میں یہی تو تضاد ہے جس نے مجھے یکسر تنہا کردیا۔یکدم اسکا دھیان یخ بستہ نرم ہوا درختوں کے سوکھے پتوں کی سرگوشیوں اور سوکھی ٹہنیوں کے رقص کی طرف چلا گیا سب کچھ کتنا دلفریب تھا وہ سوچنے لگی یہ سب تو ازل سی ہی ایسا ہے لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ ادھورے وجود کے ساتھ نا قدرت کی یہ رت دکھائی دیتی ہے نا محسوس ہوتی ہے اور ناہی فطرت کی سرگوشی سنی جاسکتی ہے۔۔یوں ہی سوچ میں گم چلتے راستہ کاٹتا گیا اور وہ گھر آچکا تھا جہاں اسکو معاشرے کی زد اور ہزاروں مجبوریوں کے باعث بیسرا کرنا تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی اسے ایسا لگا کہ جیسے اسکے وجود کی کشتی گہرے اور خاموش پانیوں سے یکایک شور کے طوفان میں اتر گئی بچوں کے چیخ و پکار بڑوں کی آوازیں اور قہقے سن کر یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی جشن یا میلے کا سماں ہو لیکن اسے اس سب سے کیا غرض تھی وہاں اتنا عرصہ رہ کے بھی اس نے وہاں کی کسی چیز یا فرد سے کوئی غرض نا رکھی تھی وہ لحمہ بھر گیٹ میں ٹھٹکی اسکا جی چاہا کے واپس لوٹ جائے اور جاکر اسی ویرانی،خاموشی میں گم ہوجائے جو ہمشیہ سے اسکی منتظر رہتی ہے وہ تہنائی ویرانی ہی شاید اسکے وجود میں بستی تھی جسے باہر کی تمام رونقیں بے رنگ اور فریب لگتی تھی۔مگر نا چاہتے ہوئے بھی وہ گیٹ سے آگے بڑھی اور صحن کو عبور کرکے برآمدے میں داخل ہوگء وہاں خود کو کرسی پر گرادیا کچھ دیر وہی آنکھیں موندے بیھٹی رہی کئی۔

بار گھر کے مہمان نوکر اور بچے وہاں سے گزرے لیکن کسی کو اتنی فرصت نا تھی کہ اسکی طرف توجہ دیتا سب بہت مصروف لگ رہے تھے۔چند لحمے بعد اپنے لاچار وجود کے ساتھ اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی کمرے میں پہنچ کے سامنے پلنگ پہ براجمان عورت نئی نویلی دلہن کے روپ میں کافی پرکشش نظر آرہی تھی اسے وہاں یوں بھیٹا دیکھ کے اسکی حیرت میں مزید اضافہ ہوا اسے کچھ سمجھ نا آرہی تھی یہ دلہن یہ سجا کمرہ یہ سب کیا ہے وہ کچھ بھی نا بولی وہاں کھڑے حیرت میں مبتلا اس شخص کی گونج نے اسے چونکا دیا۔۔۔۔اوہ آپ آئی ہیں محترمہ۔۔۔؟

!آپ نے یہاں آنے کی تکلیف کیوں کی؟؟؟۔جہاں تھی وہی رہتی۔۔۔!حیرت میں مبتلا وہ۔ سوالیہ نظروں سے اس دلہن کو تکنے لگی۔وہ اشارہ کرکے کہنے لگا سامنے وہ خاتون میری نئی دلہن ہے۔یہ سنتے ہی اس میں سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں مفلوج ہوچکی تھی۔وہ کہنے لگا دیکھو میری زندگی کا کافی حصہ تم جیسی بابا آدم کی دور کی روح کے ساتھ گزار کے میں خراب کرچکا ہوں اب مزید نہیں۔مجھ میں ذرا بھی ہمت نہیں تمھارے ساتھ زندگی خراب کرنے کی میں اب تمھیں فارغ کرتا ہوں جاو اپنی تنہائیوں کے ساتھ خوش رہو۔اور اب یہاں رونا دھونا تماشہ کرکے میری زندگی کا خوبصورت دن خراب مت کرنا۔

وہ خالی لہجے میں کچھ دیر یوں ہی بے مقصد وہاں کھڑی رہی۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اسے کہے یہ رشتہ تو بس معاشرے کا دباو تھا جسے نبھاتے نبھاتے وہ خود کو کھو چکی تھی وہ بس مردہ دل کے ساتھ یہاں دن رات گزار رہء تھی صرف اس غرض سے کے سماج کیا کہے گا اسکا دل چاہ رہتا تھا وہ چیخ چیخ کے کہے کہ یہ معاشرہ مختلف شکلوں میں اسکے وجود پہ ایسے ہی تھپڑ رسید کرتا آیا ہے جیسا آج اس شخص نے رسید کیا۔لیکن وہ کچھ نا بولی خاموشی سے بوجھل قدموں کے ساتھ وہاں سے باہر نکل آئی۔کس قدر اندھیرا ہے شاید میرے اندر کا اندھیرا اس سے بھی گہرا ہے۔کتنی سردی ہے۔

وہ دھیرے سے بڑبڑائی۔اس نے شال کو مظبوطی سے کاندھے کے گرد لپٹ لیا۔فضاء میں جھینگر کی آواز تھی۔دور دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ابھرتی اور پھر خاموشی چھا جاتی۔وہ چلتی رہی اسکے خیالوں میں وہ تمام بوجھ جو معاشرے نے زبردستی اسے کندھوں پہ لادے تھے انکے تلے خود کو دبتا ہوا محسوس کرنے لگی۔ وہ تمام تھپڑ جو اس معاشرے نے مختلف مواقعوں اور مقامات پہ اسکی روح پہ مارے تھے وہ سب ایک ایک کرکے گردش کرنے لگے۔وہ خود سے کہنے لگی اسکو تہذیب کے رنگوں میں لپٹے وہ سارے فیصلے رد کرنے چاہئیے تھے جس میں جینے کے لیے مرد اور عورت کے درمیان اتنے پیمانے تھے جن میں اسکی ذات دب کے سسک رہی تھی۔

اس نے نگاہ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور اپنی تمام زندگی معاشرے کے دباو تلے گزر جانے کا ملال ایک آنسو بن کے اسکے گال سے رسکا۔دھند اور خنک فضاء میں روندھے ہوئے اکادکا ستارے جھلملا رہے تھے۔اور سامنے تنہا اندھیروں میں گم ہوتا طویل راستہ۔