|

وقتِ اشاعت :   July 29 – 2020

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ کلائمیٹ چینج آنے والے وقت میں عالمی دنیا کے لئے ایک سنگین مسئلہ ہے، اور اس سے نمٹنے کے لئے دنیا کے زیادہ تر ممالک ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرکے قومی اور بین الاقوامی سطح پر پالیسیاں مرتب کرکے اس پر عملدرآمد کررہے ہیں۔ کیونکہ اس وقت کلائمیٹ چینج کے اثرات دنیا کے کئی ممالک میں نمودار ہونا شروع ہوچکے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی تغیرات سے نمٹنے کے لئے نبردآزما ہیں۔جبکہ مکران کے ساحلی علاقوں میں کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لئے اقدامات اپنی جگہ ساحلی پٹی کو کچرہ دان بنایا جارہا ہے۔ مکران کے ساحلی شہر پسنی میں ساحل کنارے کچروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں، جو تیز ہواؤں کی وجہ سے سمندر میں شامل ہورہے ہیں۔
موسمی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کے معاہدے کنونشن آن کلائمیٹ چینج 1955 اور کیو ٹو پروٹوول کول 2005 پر دستخط کرچکا ہے اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق اقدامات کرنے کا پابند ہے۔ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں،اور بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں بھی موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نظر آنا شروع ہوچکے ہیں۔ بحیرہ عرب کی سطح میں سالانہ پانچ ملی میٹر اوسطاً اضافہ ہورہا ہے جبکہ مکران کے ساحلی علاقوں میں درجہ حرارت بڑھنے کے ساتھ گرمیوں کے دورانیہ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔برطانوی نشریاتی ادارہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک عشرے کے دوران پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا اور اس مشاہدے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بلوچستان اور سندھ کے بنجر ساحلی علاقوں کے درجہ حرارت میں اعشارہ چھ سے لیکر ایک سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے سمندر ملکی صنعت اور تجارت کے علاوہ سیر و سیاحت اور ساحلی علاقوں کی خوبصورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس سے بھرپور استفادہ کررہے ہیں اور سالانہ لاکھوں ڈالرز سیاحت کے شعبے میں ملکی خزانے میں جمع ہورہے ہیں، اور ساحلوں کے کنارے سیاحتی مراکز بناکرسیاحت کو ایک منافع بخش کاروبار بنایا گیا ہے۔اس سے نہ صرف ملکی خزانہ میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوچکے ہیں۔جبکہ ساحلی پٹی کی خوبصورتی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں سمندر اور ساحل کو آلودگی سے بچانے کے لئے خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس مکران کے ساحلی علاقوں میں صورتحال کچھ اسطرح سے ہے کہ ساحل کے کنارے کچرے اور گندگی کے ڈھیر جمع ہورہے ہیں جس سے نہ صرف ساحل کی خوبصورتی ماند پڑچکی ہے بلکہ آبی پرندے اور جانور اب ساحل سے دور جارہے ہیں۔ ماضی قریب میں سائبیریا سے نقل مکانی کرکے آنے والے آبی پرندے جوکہ ساحل مکران کو اپنا عارضی مسکن بنا تے تھے،اب انکی آمد میں واضح کمی ہوچکی ہے۔ جبکہ مکران کے ساحلی علاقوں میں کچھوؤں کی تعداد بڑھنے کی بجائے گھٹ رہی ہے۔ماہرین اسکی وجہ سے ساحل کنارے گندگی اور استعمال شدہ پلاسٹک کے جالوں کو سمجھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آبی پرندے اور جانور کسی بھی ساحلی علاقے میں عدم تحفظ محسوس کرنے کی صورت میں اس علاقے سے کہیں دور جاتے ہیں۔ عالمی اداروں کے ایک سروے کے مطابق بحیرہ عرب میں سمندری آلودگی خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے اس سے کراچی اور بلوچستان کے سمندر میں بغیر ٹریٹمنٹ کے سیوریج کا پانی ڈالا جارہا ہے۔ اس سے سمندری آلودگی میں ہر سال اضافہ ہورہا ہے اور اس آلودگی کے زیادہ تر شکار چھوٹی مچھلیاں اور کچھوے ہورہے ہیں۔
مکران کے ساحلی علاقوں میں فش کمپنیاں، آئس فیکٹری اور فش گودام عین ساحل کے قریب قائم کئے گئے ہیں جن کے فاضل اور زہریلا مواد براہ راست سمندر میں شامل ہونے سے چھوٹی مچھلیوں کی ہلاکت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس سے سمندر کی نظام پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں کیونکہ بڑی مچھلیاں زندہ رہنے کے لئے چھوٹی مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔مکران کے ساحلی پٹی پسنی میں ساحل کے ہر اطراف گندگی کے ڈھیر موجود ہیں جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ ساحل نہیں بلکہ ایک کچرادان ہے۔ پسنی کے ساحل کے قریب دو د درجن کے قریب فش کمپنیاں اور چھوٹے چھوٹے فش گودام قائم ہیں۔ ان میں کچھ کمپنیاں پسنی فش ہاربر کے اندر اور چند ایک ہاربر سے باہر ساحل کے کنارے بنائے گئے ہیں۔ مشاہدے میں آئی ہے کہ فش کمپنیوں کے فاضل اور زہریلے مواد کسی محفوظ جگہ پر ڈیمپنگ کی بجائے براہ راست سمندر میں مکس ہوکر آبی حیات کے موت کا سبب بن رہے ہیں۔
ماہرین حیاتیات کا کہنا ہے کہ آبی آلودگی سے نہ صرف آبی حیات کو خطرہ ہے بلکہ آبی مخلوقات کے کئی اقسام کے معدوم ہونے کے بھی امکانات ہیں۔جبکہ ساحل کے قریب پائے جانے والی سمندری مخلوق ساحل کے قریب گندگی کی وجہ سے یا تو معدوم ہوجاتے ہیں یا ساحل کو چھوڑ کر کسی محفوظ ساحل کی طرف رخ کرتے ہیں۔پسنی کے ساحل کے قریب پڑے گندگی کی ڈھیر میں پلاسٹک کے تھیلے بھی موجود ہیں جو کہ غیر حل پذیر ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پلاسٹک کے تھیلے چار سو سے ساڑھے چار سو سال تک موجود رہتے ہیں جو کہ گرمی اور نمی لگنے کی وجہ سے ٹوٹ کر ذرات میں بدل جاتے ہیں اور یہی ذرات سمندر میں موجود مائیکرو اینیمل کے موت کا باعث بنتے ہیں۔ اور انہی مائیکرواینیمل کی وجہ سے سمندر کا پورا ایکوسسٹم چل رہا ہے۔ماہرین کا کہا ہے کہ ساحل کو آلودگی سے بچانے کے لئے وقتاً فوقتاً ساحل کی صفائی کی جائے اس سے ساحل کو کچرے اور گندگی سے صاف کرکے نہ صرف آبی حیات کو تحفظ دیا جاسکتا ہے بلکہ ساحل کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ماحولیات اور آبی حیات پر کام کرنے والے اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ مکران کے ساحلی علاقوں میں آبی حیات کے تحفظ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں تاکہ آبی حیات کو مزید نقصان نہ پہنچ سکے۔