|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2021

چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے مرکز مکران ڈویژن میں بجلی کے بحران نے سی پیک منصوبہ کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ منصوبے پر کئی سوال اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماڈرن دور میں بجلی کو انفراسٹرکچر کا بنیاد کہاجاتا ہے۔ جس کا مطلب وہ ستون جس کے سہارے پورٹ کی سرگرمیاں اور صنعتوں کی چمنیاں چلتی ہیں۔ پورٹ ہوں یا صنعت ان کی سانس بجلی پر منحصر ہے۔ آج کے دور میں بجلی انفراسٹرکچر کی بنیادی روح ہوتی ہے جس پر خطے کی ترقی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ دنیا کے جس ملک نے ترقی کی اس نے سب سے پہلے انرجی سیکٹر پر توجہ دی۔

دوسری جانب گوادر پورٹ سے متعلق یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان گوادر بندرگاہ کو صرف ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔ کیوں کہ گوادر کو انٹرنیشنل سی پورٹ کے معیار پر لانے میں اسے مزید کئی سال درکار ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو سامان یہاں پہنچتا ہے۔ اس کی اکثریت مقامی مارکیٹ کے لیے نہیں ہوتی، بلکہ دوسرے اندرون ملک نقل و حمل کے طریقوں کے ذریعے اندرونی علاقوں میں آخری منزل تک پہنچائی جاتی ہے۔ یہ انکشاف پاکستان میں جاپان کے سفیر مٹسوڈا کونینوری نے اپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت گوادر میں کوئی انڈسٹریل کمپلیکس یا تجارتی علاقہ نہیں ہے۔ دوسرے اور تیسرے درجے کے منصوبے ہیں جن کی تکمیل میں طویل وقت درکار ہوگا۔
گوادر کا مستقبل ضرور ہے۔ تاہم اس مقصد کے لیے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے منصوبوں بشمول انڈسٹریل کمپلیکس کی تعمیر کے لیے اچھی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ اس کے ساتھ لاجسٹک سپورٹ ایریا اور روڈ نیٹ ورک پر بھی توجہ دینی ہوگی۔

اگر دیکھا جائے جاپان حکومت نے ہمیشہ سندھ اور بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جاپان حکومت ماہی گیروں کو جال اور انجن اور دیگر آلات فراہم کرتی رہی ہے۔ اسی طرح 2010 میں جاپان حکومت نے پسنی فش ہاربر کی بحالی کے لئے اسی کروڑ روپے کی گرانٹ جاری کی تھی۔ اسی کروڑ میں ستائیس کروڑ بارہ لاکھ سترہ ہزار روپے غلط طریقے سے خرچ کئے گئے۔ ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیاگیا، جس کا میرین انجینئرنگ سے دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا۔ کمپنی کی تکنیکی ٹیم پورٹ کی بحالی کا کوئی بھی تجربہ نہیں رکھتی تھی۔ جس پر کراچی میں قونصل خانہ جاپان کے حکام نے کام پر سوالات اٹھائے۔ اور حکومت کو خطوط لکھے۔تاہم کرپشن اور اقربا پروری کرنے والوں کے گریبان تک آہنی ہاتھ نہیں پہنچ سکے اور پہنچ بھی نہیں سکیں گے، کیونکہ اس دھندے میں سب نے اپنا منہ کالا کیا ہے۔

دراصل ضلع گوادر، ضلع پنجگور اور ضلع کیچ میں بجلی کا بحران حکمرانوں کی غلط منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ سی پیک کے آغاز سے قبل مکران ڈویژن میں بجلی کی فراہمی کو ایران سے منسلک کرنے کے بجائے نیشنل گرڈ سے منسلک کیا جاتا۔مگرایسا نہیں کیاگیا، اس وقت خود بلوچستان جو بجلی پیدا کررہا ہے اس کو واپڈا حکام دیگر صوبوں کو دے رہے ہیں۔ بلوچستان اپنی بجلی سے خود محروم ہے جس طرح بلوچستان سے نکلنے والی گیس سے بلوچستان کے عوام محروم ہیں۔ کنڈھ حب (ضلع لسبیلہ) کے مقام پر دو بڑے بجلی گھر قائم ہیں۔ جن میں حبکو پاور پلانٹ اور چائنا پاور حب جنریشن کمپنی شامل ہیں۔ 1994 میں قائم حبکو پاور کمپنی میں 1296 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے جبکہ چائنا پاور حب جنریشن کمپنی 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کررہی ہے۔ جبکہ مکران ڈویژن کو ایک سو میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہے۔ مگر غلط منصوبہ بندی کے تحت مکران کو حب سے پیدا ہونے والی بجلی سے محروم رکھاگیا۔ اور مکران ڈویژن کو ایران سے ایک سو میگا واٹ بجلی فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کردیاگیا تھا جس کو بعد میں رات کے اوقات میں ستر سے اسی میگاواٹ کردیاگیا اور دن کو دس میگاواٹ مقرر کردیاگیا۔ جس کی وجہ سے بجلی کے بحران نے مکران کو ہلاکر رکھ دیا۔ حالانکہ حب کی یہ دونوں پاور کمپنیاں 2616 میگاواٹ بجلی پیدا کرتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل حبکو پاور پلانٹ کو معیاد مدت پوری ہونے کی وجہ سے بند کردیاگیا تاہم اس کو اسٹینڈ بائی پررکھا گیا ہے۔

یعنی جب بھی بجلی کی ضرورت ہو، اس کو دوبارہ فنکشنل کیا جاسکے گا۔ لیکن پھر بھی چائنا پاور حب جنریشن کمپنی 1320 میگاواٹ بجلی پیدا کررہی ہے۔ لیکن ان دونوں کمپنیوں سے بلوچستان کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔ نہ صرف بلوچستان میں پیدا ہونے والی بجلی کو دیگر صوبوں کو دی جارہی ہے بلکہ ان کمپنیوں میں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع بھی میسر نہیں ہیں۔ 80 فیصد ملازمین کا تعلق کراچی سے ہے۔ ان کمپنیوں میں ٹھیکیداری نظام قائم ہے۔ جس کا سہرا وزرات محنت و افرادی قوت بلوچستان کے حکام کے سرجاتا ہے۔ ٹھیکیداری نظام کے سبب ملازمین تمام جائز مراعات سے محروم ہیں اور ان کی ملازمتوں کو بھی کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ کسی بھی وقت ٹھیکیدار ملازم کو ملازمت سے فارغ کردیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزارت محنت و افرادی قوت بلوچستان مکمل غیر فعال ہے جس کے سبب مزدور وںکا خون چوسا جارہا ہے۔ یہاں ملازمین کی بڑی تعداد استحصال،جبری مشقت اور خطرناک حالات میں کام کرنے پر مجبور ہے۔

غیر مقامی مزدور رکھنے کی وجہ سستی لیبر ہوتی ہے جو ٹھیکیدار کے ذریعے لائی جاتی ہے۔ کمپنیوں میں یونین سازی کی اجازت نہیں ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مزدوروں کا استحصال کیاجا سکے۔
یہ کمپنیاں بلوچستان حکومت کو سیلز ٹیکس نہیں دے رہیں۔ ان کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہیڈ آفس کراچی میں قائم ہیں جس کو بنیاد بناکر وہ سیلز ٹیکس سندھ حکومت کو دیتی ہیں جس سے بلوچستان کو کروڑوں روپے کی آمدنی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ضلع لسبیلہ میں آلودگی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ تمام علاقے بری طرح ماحولیاتی آلودگی سے متاثر ہورہے ہیں۔ قائم کمپنیز زہریلا دھواں خارج کرکے فضا کو آلودہ کررہی ہیں۔ جس کی وجہ سے پورے ضلع میں دمہ سمیت مختلف بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

ویسے تو بجلی بحران کے خلاف پورے مکران ڈویژن کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ مگر گزشتہ روز گوادر کے عوام کا صبرکاپیمانہ لبریز ہوگیا۔گوادر شہر میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔چائینیز فشنگ ٹرالرز کی بلوچستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی اورگوادرشہر میں بجلی اور پانی کے بحران کے خلاف نیشنل پارٹی اور بی ایس او (پجار) کی اپیل پر گوادر شہر میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ ہڑتال کی وجہ سے گوادر شہر میں کاروباری سرگرمیاں معطل ہوگئیں۔ تجارتی مراکز کے علاوہ مالیاتی ادارے بھی بند رہے اور سڑکیں سنسان رہیں۔ ہڑتال کے دوران انتظامیہ اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں نیشنل پارٹی کے رہنماؤں سمیت کارکنان زخمی ہوگئے۔
سی پیک کا مرکز گوادر ہوتے ہوئے بھی یہاں کے عوام سی پیک کے ثمرات سے محروم ہیں۔ سی پیک بلوچستان کے عوام کے لئے ایک دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد فریب اور جھوٹ پر رکھی گئی ہے۔