|

وقتِ اشاعت :   October 20 – 2021

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ملک کے حالات بدتر ہیں جبکہ ہر نجی و سرکاری ادارے میں کم از کم اجرت 25 ہزار کرنے کو یقینی بنائیں گے۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ ملک میں بدتر حالات مہنگائی کےحوالے سے ہیں، اشیائےخورونوش کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئی ہیں، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت نے ان حالات کو دیکھ کر کم ازکم اجرت 25ہزار روپے کی تھی، ہم نےکم ازکم اجرت میں 43 فیصد اضافہ کیاتھا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ کم ازکم اجرت مقرر کرنا حکومت سندھ کا استحقاق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت نے کہاکہ کم ازکم اجرت کا اطلاق عارضی اوریومیہ اجرت والے مزدور پر بھی ہونا چاہیے، کابینہ نے فیصلہ کیا ہے 25ہزار روپے کم ازکم اجرت کے قانون پر سختی سےعمل کیاجائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ہر نجی وسرکاری ادارے میں یقینی بنائیں گےکہ کم ازکم اجرت 25ہزار روپے ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی کےحالات دیکھ کر لگتا ہے کہ کم ازکم اجرت 25ہزار روپے سے بڑھانا ہوگی۔

وزیراعلی سندھ نے کہا کہ محکمہ لیبر میں شکایات سیل بنایا جائےگا، جو ادارہ کم ازکم اجرت 25ہزار روپے نہیں دےگا اس کےخلاف کارروائی ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ اب مہنگائی کی وجہ سےلوگ رونے کی سکت میں بھی نہیں رہے، وفاقی حکومت کو اپنی مرضی کےقوانین لانے سے فرصت نہیں، حقیقت پر بات کرنے کےبجائ ےپروپیگنڈا شروع کر دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا کےخلاف حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر ہم میڈیا کے ساتھ ہیں۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں اساتذہ کی بھرتی کے لیے آئی بی اے کے ذریعے ٹیسٹ لیے گئے تھے اور صوبائی کابینہ نے اساتذہ کی بھرتی کے لیے اہلیت کا معیار مقرر کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نےمیرٹ کا خیال رکھتے ہوئے آئی بی اے سے ٹیسٹ کرایا اور ٹیسٹ کے نتائج آئے تو سیکڑوں طلبہ پاس نہیں ہوسکے۔

وزیراعلی نے کہا کہ ہمیں اسکولوں میں اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے اور کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ خواتین کے لیے اہلیت کا معیار 50فیصد نمبر کیا جائے جبکہ خصوصی صلاحیتوں کےحامل طلبہ کے لیے 33 فیصد نمبر مقرر کیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے کچھ دن پہلے ایک خط لکھا تھا اور کہا کہ کاربن کریڈٹ کو قومی اثاثہ قرار دیا جائے، جنگلات اور ماحولیات صوبائی معاملہ ہے اور ہمارے مینگروز پلانیٹیشن کی دنیا نے تعریف کی ہے۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت خود کچھ کرتی نہیں اور صوبے کے اچھے کام پر وفاقی حکومت قبضہ کرلیتی ہے، آئینی طور پر کاربن صوبائی معاملہ اور اثاثہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کو زمین قانون کےمطابق دیتے ہیں اور پاکستان نیوی کو 200ایکڑ زمین قانونی کارروائی مکمل کرکے دی ہے، ۔

انہوں نے کہا کہ ملیر ایکسپریس وے کا ایک روٹ طے ہوا تھا لیکن پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ بورڈ نے ملیر ایکسپریس وے روٹ تبدیل کرنے کی سفارش کی جس کی وجہ سے منصوبےکی لاگت بڑھ رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی منطق کا مقابلہ نہیں کرسکتا، ان کے دور میں مکمل بد انتظامی ہے، گزشتہ سال بھی کہا کہ گندم کی اسمگلنگ روکیں جبکہ اس سال بھی یہی حال ہے اور ہمیں دو ماہ قبل کہا گیا کہ گندم جاری کریں۔

انہوں نے کہا کہ یہاں آٹا 70 روپے کلو مل رہا ہے، جہاں 55کا آٹا مل رہا ہے وہ جانوروں کو بھی نہیں کھلا سکتے، ہر ملک اپنےشہریوں کا خیال رکھتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیشہ کہتا ہوں کہ اگر دوسرے ملکوں میں مہنگا ہے تو تم وہاں چلے جاؤ اور ہماری جان چھوڑو۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ اس حکومت کا کام ہر چیز دوسروں پر ڈالنا ہے، ان کا ہر کام جھوٹ پر مبنی ہے، ان کو اپنے اندر خامیاں نظر نہیں آتیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت سےکئی بار کہہ چکا ہوں کہ صوبے میں افسران کی کمی پورے کریں، ہم اب اپنے افسران کی ٹریننگ کرائیں گے، وفاق نے 16افسران دینے ہیں جبکہ اس وقت صرف چار افسر کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کا کام صرف حکومت سندھ کو مفلوج کرنا ہے اور وفاق حکومت سندھ کےافسران کو زبردستی لے جاتا ہے، جو افسر نہیں جاتا اس کےخلاف انکوائری شروع کردیتے ہیں۔

مرادعلی شاہ نے کہا کہ اداروں سے ٹکرانے کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے، اسپیکر سندھ اسمبلی کےساتھ یہ رویہ رکھا جارہا ہے، حالانکہ اسپیکر کا یہ حق ہےکہ وہ سپریم کورٹ جائیں اور ریلیف حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر سندھ اسمبلی کہیں بھاگے نہیں جارہے ہیں، چھاپہ مارنےکا سارا ڈرامہ کیا گیا، کسی کی تذلیل کرنا بہت غلط ہے، اسپیکر کے گھر پر چھاپہ مار کر بتانا کیا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خورشید شاہ کو قید میں دو سال ہوگئے ہیں، بابل بھیو پر چار لاکھ روپے کا الزام اور تین سال سےقید ہیں۔