|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2022

ملک میں سیاسی تبدیلی تو ویسے ہی آئے گی عدم اعتماد کی ناکامی اور کامیابی دونوں صورتوں میں سیاسی پارہ ہائی رہے گا کیونکہ اس وقت حکومت اوراپوزیشن دونوں نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ نہیں چھوڑنا ہے ۔وزیراعظم عمران خان اگر عدم اعتماد اور موجودہ سیاسی بحران سے نکل گئے تویہ گمان کیاجارہا ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈران کے تعاقب میں لگ جائینگے جو گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے جاری ہے اس دوران اپوزیشن کے بڑے لیڈران کو جیل بھیجا گیا بعدازاں وہ رہا بھی ہوئے ،ضمانتوں پر بھی ہیں ۔نواز شریف کے متعلق حالیہ کاوے کا بیان بھی سامنے آچکا ہے

اس تمام تر ماحول میں ایک بات سمجھنے کی ہے کہ احتساب کے نام پر بنائے گئے ادارے کو سیاسی جماعتوں نے اس قدر متنازع بنادیا ہے کہ اس پر بھروسہ بہت کم ہی کیاجاتاہے خاص کر نیب کے حوالے سے خدشات وتحفظات کا اظہار کیاجاتا رہا ہے کہ جس کی بھی حکومت آتی ہے وہ نیب کو استعمال کرکے مخالفین کے خلاف کیسز بناکر انہیں جیل بھیج دیتا ہے جو غلط سیاسی روایات اور غلط طرز حکمرانی ہے ۔اس سیاسی جنگ کی وجہ سے آج تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آیا اور نہ ہی ملکی مسائل حل ہوئے ہیں بلکہ ملک سنگین بحرانات کا شکار رہا ہے۔ سیاسی استحکام، مضبوط حکومت اور طرز حکمرانی بہتر ہونے سے ہی ملک میں خوشحالی آسکتی ہے اگر سیاسی جنگ کو ذاتی نہج تک لایاجاتا رہے گا تو یہ مسائل کم نہیں ہونگے بلکہ مزید آگے شدت اختیار کرینگے۔ بہرحال عدم اعتماد کی تحریک کو چند روز رہ گئے ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی پُرامید دکھائی دے رہے ہیں ۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت چھوڑنے کیلئے تیار ہوں لیکن انہیں استعفیٰ نہیں دوں گا۔

وزیراعظم ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ کیا چوروں کے دباؤ پر استعفیٰ دے دوں؟ عدم اعتماد پر ووٹنگ سے ایک روز قبل سرپرائز دوں گا۔ان کا کہنا تھاکہ حکومت گر بھی گئی تو چپ نہیں بیٹھوں گا، لڑائی ہونے دیں وقت بتائے گا استعفیٰ کون دیتاہے؟ اپوزیشن نے دباؤ میں آکر اپنے تمام کارڈز شو کر دئیے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھاکہ اگر کوئی پارٹی رکن ناراض ہے تو استعفیٰ دے، ابھی تو لڑائی شروع ہوئی ہے، میں ہار ماننے والا نہیں، کسی بھی صورت این آر او نہیں ملے گا۔ان کا کہنا تھاکہ جو زرداری کے ساتھ ملے گا وہ پیسے کیلئے ملے گا، کوئی نظریاتی شخص زرداری کے ساتھ نہیں ملے گا۔بہرحال نظریاتی ورکرز ممبران پر یہ خود بہت بڑا سوال ہے سیاسی جماعتوں میں شمولیت اور مستعفی ہونا معمول ہے ہواکا رخ تبدیل ہوتے ہی بڑے بڑے دعویدار پیچھے ہٹ جاتے ہیں اس لیے اس پر بحث ہی نہیں کی جاسکتی، سب کے سیاسی عمل سے عوام آگاہ ہیں، غریب عوام آج تک اپنے مسائل میں ہی گِرے ہوئے ہیں کہ انہیں نجات مل سکے حکومتیں تبدیل ہوتی رہی ہیں

مگر عوام کی قسمت تبدیل نہیں ہوئی۔بہرحال سیاسی کھیل بڑا دلچسپ چل رہا ہے اپوزیشن کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ حکومتی اتحادیوں کی جانب سے چند روز کے اندر ہی بڑا سرپرائز دینگے ،اندرون خانہ کھیل تو چل رہا ہے مگر پہلے بھی اس کا ذکرکیا جاچکا ہے اس پورے سیاسی گیم میں اتحادی اچھے پچ پر کھیل رہے ہیں، انہیں دونوں جانب سے اپنی بات منوانے کا موقع ہاتھ آیا ہے اور وہ اسے ضائع جانے نہیں دینگے، اس لیے بڑے بینیفشری اس وقت اتحادی ہی ثابت ہونگے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ چند روز میں بڑا سرپرائز وزیراعظم کا ہوگا یا پھر اپوزیشن کا ؟