|

وقتِ اشاعت :   August 2 – 2023

کوئٹہ :  نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر سابق سینیٹر میر کبیر احمد محمدشہی نے قومی اسمبلی میں گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ کو سابق وزیر اعظم فیروز خان نون کے نام سے منسوب کرنے اور گوادر کے نام پر لاہور میں پاک چین یونیورسٹی کے قیام کی قراردادوں کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر حکومت کے لیے گوادر ائرپورٹ کا نام بدلنا فرض عین ہے۔

تو یہ بلوچستان کی کسی قومی شخصیت کے نام پر بھی رکھا جاسکتا ہے جیسا کہ دیگر صوبوں کے ہوائی اڈوں کے نام ہیں۔ اس متعلق بہت پہلے میں نے سینیٹ آف پاکستان میں یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ گوادر انٹرنیشنل ائرپورٹ کو بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے نام سے منسوب کیا جائے مگر اس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا اور کل قومی اسمبلی میں ایک نیا شوشہ چھوڑا گیا۔ بلوچستان کے ساتھ مرکز کا طرزعمل نوآبادیاتی اور استحصالی ہے۔

اسلام آباد میں بیٹھے دماغوں کو بلوچستان بالخصوص گوادر سے متعلق نت نئے خیالات آتے رہتے ہیں اور وہ بلوچستان کے عوام اور حقیقی نمائندوں کی رائے جانے بغیر اس قسم کے بھونڈے اعلانات کرتے ہیں۔ اگر ممکن ہوتا تو یہ گوادر کو ہی اٹھا کر پنجاب لے جاتے۔ گوادر بلوچستان کا حصہ اور بلوچ قومی ملکیت ہے۔ بلوچوں نے ہزاروں سالوں سے اپنے خون، پسینے اور بیشمار قربانیوں سے اپنے ساحل کی حفاظت کی ہے۔ پرتگیزیوں جیسی عظیم بحری طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے بلوچوں نے اپنے وطن اور ساحل کا دفاع کیا مگر آج جب سی پیک کے تحت گوادر کی اہمیت عیاں ہوئی ہے تو کبھی مرکز کو گوادر کو باڑ لگانے کا خیال آتا ہے، کبھی ساحل اور جزائر پر قبضے کی سوچ پیدا ہوتی ہے تو کبھی جنوبی بلوچستان کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے۔ اب پالیسی سازوں کو گوادر کی بلوچ شناخت بھی روا نہیں ہے۔ پاکستان کو گوادر کا کنٹرول حاصل ہونے سے متعلق بھی تاریخ کو مسخ کر کے ملک کے عوام کو گمراہ کن تاثر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گوادر ہمیشہ سے بلوچستان کا حصہ رہا ہے۔ خان قلات نے صرف بندرگاہ کی اپنے حصے کی آمدن بطور مہمانی ایک پناہ گزین عمانی شہزادے کو دی تھی۔ گوادر کی بندرگاہ کا مسقط کے کنٹرول میں جانا خطے میں برطانوی مداخلت کا نتیجہ تھی جنہوں نے بلوچستان کے حکمرانوں کو گوادر پر اپنا کنٹرول بحال کرنے سے روکے رکھا۔ انگریزوں کے انخلا کے فوری بعد پاکستان کے ساتھ الحاق سے بھی قبل قلات کی بلوچی حکومت نے گوادر کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لیے اقدامات اور سفارت کاری شروع کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ الحاق کے بعد یہ معاملہ ریاست پاکستان نے بطور خان قلات کی جانشین ریاست آگے بڑھایا اور بالاخر بلوچ ملکیت کے دعوے کی بنیاد پر گوادر کا کنٹرول واپس حاصل ہوسکا۔ خان قلات سے لے کر سابق وزیراعظم فیروز خان نون تک وہ تمام لوگ جنہوں نے اس معاملے میں تعمیری کردار ادا کیا ۔

وہ قابل قدر ہیں۔ مگر اس بنیاد پر گوادر کی بلوچ قومی شناخت اور ملکیت پر سوال اٹھانا کسی صورت قابل قبول نہیں۔ گوادر کسی کے بھی زیر انتظام رہا ہو مگر بلوچستان کا حصہ اور بلوچوں کی ملکیت ہی رہا ہے۔ اب بھی گوادر اور اسکی مجوزہ ترقی کے ثمرات پر پہلا حق گوادر اور پھر بلوچستان کے عوام کا ہونا چاہیئے وگرنہ موجودہ رویوں کے تحت مقامی لوگوں کی ترقیاتی عمل سے بیدخلی اور شناخت کو مٹانے کی کوششیں نوآبادیاتی طرزعمل ہی کہلائینگی۔ نیشنل پارٹی کا مقصد ہی بلوچ ساحل وسائل اور قومی شناخت کا تحفظ ہے اور انکے منافی کوئی اقدام قبول نہیں کرینگے۔