|

وقتِ اشاعت :   August 2 – 2023

کوئٹہ:  نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر مخدوم ایوب قریشی نے کہاہے کہ جس طرح موجودہ حکمرانوں گمراہ کن قانون سازی کررہے ہیں اس کا خمیازہ آنے والے وقتوں میں سیاسی جماعتوں کی قیادت اور کارکنوں کوہی بھگتنا پڑے گا حکومت ووٹ کی عزت اور پارلیمان کاوقاربحال کرنے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف بلند ہونے والی آوازوں کوپابندسلاسل کرنیکیلییاندھی قانون سازی کررہی ہے جو کہ ہراعتبار سے عوام اورجمہوریت دشمن اقدام ہے۔ یہ با ت انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہی۔

انہو ں نے کہا کہ جنرل اور اعلیٰ عدالتوں کے ججزاگرعوام کی منتخب کردہ حکومتوں کے خلاف سازشیں کر یں گے توپھراس غیر آئینی عمل پر تنقیدکرناجرم کیسے بن جائے گا۔مسلم لیگ(ن) سے زیادہ اس بات کواورکون جان سکتا ہے کہ2017ء میں ملک کے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف کوعدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے سازباز اورملی بھگت سے نہایت غیر منصفانہ اور غیر آئینی عدالتی فیصلے کے زریعے برطرف کیا گیااور یہ ساری صورتحال آج روز روشن کی طرح عیاں ہے اس طرح کی غیر آئینی حرکتوں کیسدباب کے لئے آئین میں آرٹیکل چھ کوعمل میں کیاگیاتھا آرٹیکل چھ میں تین قسم کی بغاوتوں کا ذکرہے، آئین کی ایبروگیشن یعنی آئین کی منصوخی، سسپنشن یعنی معطلی،تین سب ورژن یعنی پامالی منتخب وزیراعظم کو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کیگٹھ جوڑکے ذ ریعے ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا ۔

وہ سراسر غیر آئینی تھااس گٹھ جوڑنے وزیراعظم کو تو برطرف کردیالیکن مسلم لیگ(ن) کی حکومتی ساکھ کوبھی پامال کیا۔2018ء کے عام انتخابات میں محترمہ مریم نواز سمیت مسلم لیگ (ن) کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو غیر منصفانہ عدالتی فیصلوں کے زریعے انتخابی میدان سے باہر رکھا گیااورپھرایک بوگس اور جھرلو انتخابات کے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا اورپھر ان کی حکومت کوبھی استحکام نصیب نہیں ہونے دیا گیا عمران خان سے بزور طاقت حزب اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرائی گئیں۔ایوب قریشی نے کہا کہ یہ تمام باتیں عمران خان نے خود کہی ہیں جو ریکارڈ پر ہیں اس ساری غیر آئینی ایکسرسائز کانتیجہ یہ نکلاکہ ملک عملاً دیوالیہ ہو گیاعوام کی ایک بڑی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے گرا دی گئی۔

ملک میں مہنگائی،بیروزگاری اوربدامنی کاطوفان آگیایہ ساری صورتحال اس وجہ سے بنی کہ جن کام حکومت چلانا اور سیاست کرنا نہیں ہے وہ گزشتہ 70دہائیوں سے مسلسل سیاست میں غیر آئینی مداخلت کررہے ہیں حالانکہ کہ اب کہا یہ جارہاہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کرلیاہے اگراسٹیبلشمنٹ نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا توپھرایک سیاسی حکومت کیوں مسلمہ جمہوری اصولوں کوپامال اورپارلیمنٹ کوبے توقیر کرتے ہوئے خلاف ضابطہ طریقوں سے قانون سازی کررہی ہے۔

نیشنل پارٹی کے نائب صدر نے کہاکہ پارلیمنٹ کی کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کرنا عوام کاحق ہے،ملک کانظام عدل و انصاف عوام کو انصاف دینے میں بری طرح ناکام ہواہیاس نظام کواپنی ناکامی توہین عدالت جیسے قوانین کے نیچے چھپانے کے بجائے اپنی کارکردگی کوبہتربنانا ہوگا،الیکشن کمیشن اگرجھرلو انتخابات میں معاونت کریگاتواس پر تنقیدبھی ہوگی اسٹیبلشمنٹ اگرآئین سے انحراف کرتے ہوئے سیاست بازی کرے گی توپا بندیوں کے باوجود لوگ اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ جس سیاسی حکومت نے بھی کالے قوانین بنائے ہیں آخر کار انہیں قوانین کی زد میں وہ خود بھی آئے ہیں۔