|

وقتِ اشاعت :   August 2 – 2023

کوئٹہ:  ملک سے پولیو کا خاتمہ ناگریز ہیں۔تمام متعلقہ اداروں کے تعاون، ٹیموں کی کوششوں،اہکاروں کی قربانیوں مشکل فیلڈ حالات اور خطرناک چیلنجز کے باوجود پاکستان میں پولیو وائرس کا پھیلاؤ کنٹرول میں ہے۔موثر منصوبہ بندی اور مشترکہ کوششوں سے 99فیصد پولیو کیسز ختم ہوچکے ہیں۔جبکہ باقی ماندہ کیسز بھی اس سال کے آخر تک ختم ہو جائیں گے۔پولیو کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ منفی پروپیگنڈا ہے جس کے تدارک کے لیے میڈیا کا کردار اہمیت کا حامل ہے لہذا میڈیا لوگوں کی ذہین سازی کرتے ہوئے پولیو کے خاتمے کی حکومتی کوششوں کا ساتھ دے۔گزشتہ دو سالوں سے بلوچستان میں پولیو کا کوئی کیس درج نہیں ہوا لیکن ملکی سطح پر صرف دو کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔جبکہ پوری دنیا میں 2026ء تک پولیو فری کرنے کا ہدف مقررہ کیا گیا ہے۔

پوری دنیا میں صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان پولیو کی زد میں ہیں جبکہ دیگر تمام ممالک پولیو فری قرار دئیے گئے ہیں۔پورے ملک میں 370000ورکرز پولیو کے خاتمے کے لیے دن رات کوشاں ہے اسی محنت لگن اور جذبہ سے ہم بہت جلد پولیو فری ملک بن جائیں گے۔ان خیالات کا اظہار نیشنل کوآرڈینیٹر این ای او سی اسلام آباد ڈاکٹر شہزاد بیگ نے آج یہاں صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر میں صحافیوں کو صوبے میں پولیو کی مجموعی صورتحال اور درپیش چیلنجز کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر کوآرڈینیٹر صوبائی ایمرجنسی آپریشن سینٹر بلوچستان سید زائد شاہ،سئنیر ایڈوائزر ڈبلیو ایچ او ڈاکٹر ارشد قدوس اور ہیلتھ اسپیشلسٹ یونیسیف ڈاکٹر عبدالعزیز بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں پولیو کی مجموعی صورتحال اطمینان بخش ہے۔اب تک صوبے میں پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔جوکہ بڑی کامیابی ہے یہ کامیابی تمام اسٹیک ہولڈرز کی محنت اور کوششوں کی بدولت حاصل ہوا۔لہذا اسی محنت اور لگن کو جاری رہتے ہوئے ہم بہت جلد پولیو کا خاتمہ کریں گے۔انہوں نے کہاکہ پولیو پروگرام ایک منظم مہم ہے جس میں بیک وقت پورے ملک میں مہم چلائی جاتی ہے۔مہم کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اب تک 66 افراد جن میں پولیو ورکرز اور سیکورٹی اہلکار شامل ہیں اپنی جانوں کی قربانی دی ہیں۔انہوں نے کہاکہ پولیو مہم میں سیکورٹی سمیت فیک مارکنگ،انکاری اور منفی پراپیگنڈہ بڑی چیلنجز ہیں اس کے باوجود ہماری ورکرز تمام بچوں تک حفاظتی قطروں کی رسائی کو ممکن بنارہے ہیں اور اپنے ہدف کو کامیابی سے حاصل کررہے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے سے ہمارے پڑوسی افغانستان کا بھی فائدہ ہوگا کیونکہ دونوں ممالک میں آبادی کا نقل و حمل زیادہ ہے جس سے وائرس آزادی سے پھیلانے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔انہوں نے کہاکہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی پولیو فری ممالک میں شامل ہوگا۔انہوں نے میڈیا نمائندوں سے اپیل کی کہ وہ پولیو کے خاتمے میں حکومتی کوششوں کا ساتھ دیں اور منفی پروپیگنڈا کے تدارک میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے لوگوں میں اس مرض کے حوالے سے شعور و آگہی پیدا کریں۔انہوں نے کہاکہ پولیو ایک موذی مرض ہے جس کا شکار ہونے والا شخص عمر بھر کی معذوری اور لاچاری کا سبب بنتا ہے۔جوکہ خاندان پر ایک بوجھ بن کر پورے معاشرے کو مفلوج کردیتا ہے لہذا معاشرے کو تندرست اور توانا بنانے کے لیے پولیو کا خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے کہاکہ پولیو کے خاتمے میں جہاں دوسرے عوامل کار فرما ہے وہی میڈیا بھی ایک اہم ذریعہ ہے جوکہ لوگوں کی ذہین سازی کے ساتھ ساتھ منفی پروپیگنڈا اور افواہ کے تدارک میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا پولیو وائرس کے معاشرے پر اثرات،معذور افراد کے مسائل خاندان کی پریشانی کے حوالے سے عوام کو آگاہ کرے۔بحیثت ایک زمہ دار شہری ہمیں پولیو مہم کی کامیابی، ٹیموں سے تعاون اور اہداف کے حصول میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرے کو پولیو سے پاک کریں۔انہوں نے کہاکہ پولیو کے خاتمے میں جہاں دیگر اداروں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے وہی علماء کرام کے کردار سے کسی صورت انکار کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے ہر مرحلے میں ہماری بھر پور مدد اور معاونت کی ہیں۔ہماری مشترکہ کوششوں اور حکومتی اقدامات کی بدولت پاکستان جلد پولیو فری ملک بن جائے گا۔