|

وقتِ اشاعت :   September 15 – 2023

دو،تین دھائیوں یا اِس سے آگے ملک کی سیاسی تاریخ کو سامنے رکھ کر دیکھاجائے تو لگتاہے کہ بلوچستان،کے پی کے اور سندھ کے چند برگشتہ قائدین اور ایک دو جماعتوں کے دیگر سارے سیاستدان اور پارٹیز ایک منفرد مکتبہ فکر سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ کسی نہ کسی طور پر “درسگاہ ” کی پیداوار ہیں اور حصولِ اقتدارکے متعلق اْس آفاقی نقطہ نگاہ کے ساتھ فکری ہم آہنگی رکھتے ہیں ۔

جہاں انوارالحق جیسے” قیمتی گوہر” تربیت پاکر میدانِ سیاست میں قدم رکھتے ہیں جو ملک کو درپیش دیرینہ مسائل کے حل پر توجہ دینے اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جمہوری اصولوں پر کاربند رہ کر چلنے اور انتخابات میں کامیابی کے لئے عوام کے ووٹوں کی فیصلہ کن قوت پر یقین کے برخلاف مکتب کی طرف دیکھتے ہیں یہ بھی کہ اجتماعی قومی یا جمہوری مفادات کو ترجیح دینے کے برعکس خاندانی،گروہی اور ذاتی اغراض کے حصول اور تحفظ کو اوّلیت دیتے ہیں۔

بالاطرزِعمل کا افسوسناک پہلو بلاشْبہ اَٹل ہے مگر اِس سے بھی دوقدم آگے دیکھاجائے تو مذکورہ طریقہ کار اپنانے پر پاکستان کے سیاستدان قصوروار بھی نہیں ہیں اِس لیئے کہ ملک کے خمیر میں جمہوری اقدار کی پاسداری شامل ہی نہیں ہے اِس ملک کی سیاسی تاریخ میں کس جماعت نے اور کب جمہوریت اور عوام کی اقتداراعلیٰ قائم رکھنے کے لئے کم یا قربانیوں سے بھرپور جدوجہد کی ہے ۔ملک کی پوری سیاسی تاریخ میں متحدہِ پاکستان کے دور میں عوامی لیگ، نیپ اور جمعیت کے علاوہ ایک جماعت بھی بطورِمثال نہیں ملے گی جو ” درسگاہ ” کی تربیت اور حلقہِ اثرسے آزاد عوام کے صفوں میں پرورش پا چْکی ہو۔

یا وجود رکھتی ہو وہ چاہے عوامی اقتدار اور جمہوریت کی برائے نام علمبردار پی پی اور نواز لیگ ہوں یا پی ٹی آئی اور دیگر بہت سارے جو دراصل مختلف ادوار کی ضروریات اور یکے بعددیگرے ڈاکٹرائنوں کی پیداوار ہیں۔ اقتدار کی بندربانٹ میں شراکت داری کے ایک ہی نقطے پر احتجاج، ناراضگی اور برہمی ظاہرکرنے کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اِن نام نہاد جمہوری پارٹیوں کے دیگر تمام تر اختلافات، دعوے اور وعدے سوائے جھوٹ،فریب اور نمائش کے کچھ بھی تو نہیں ہیں۔

اس سلسلے میں اگرہم نواز لیگ کی یلغار اور طریقہِ واردات کو دیکھیں تو عمران خان کے دورِ حکومت میں نواز شریف نام لے کر اسٹیبلشمنٹ کے نمائندوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں مگر پھر شہباز شریف کے دورسے ابتک وہ خود اور انکی بیٹی اِس اْمید کے ساتھ خاموش تماشائی ہیں کہ شاید ان کو دوبارہ حکومت میں آنے کی اجازت ملے حالانکہ پورا ملک ابھی تک اْس دور کے تجربات کی ناقابلِ برداشت صعوبتیں جھیلنے پر مجبورہے۔ ملک کے سارے سیاستدان ذمہ داروں کو جانتے ہیں مگر حسبِ روایت اْن کو گرفت میں لانا سیاستدانوں کی نہ صرف دسترس سے باہر ہے بلکہ مْدعا اور مطمعِ نظر بھی نہیں ہے۔

نہ ہی ارادے شامل ہیں۔عمران خان اقتدار سے بے دخلی کے بعدجوکچھ کہتے اور کرتے رہے ہیں اس سے سبھی واقف ہیں ۔پاکستان میں اقتدار کے مرکز پنجاب کے مذکورہ دو بڑی پارٹیوں کی بہ نسبت کمترحصہ دار بھاری کے نام پر نامدار ،،زرداری،، بھی وزن گِرا کر چْھوٹوکے طور پر بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے درمیان موجود نفرت اور محاذآرائی سے فائدہ اْٹھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

مگر لگتا ہے کہ پی پی کی بھاگ میں بِگاڑ ہے یا بگڑی بنانیوالے “بلاول” کو قابل نہیں سمجھتے یا اعتماد نہیں کرتے ورنہ قدرت مہربان ہو تو بِگڑی بنانا کونسی بڑی بات ہے اور پھر اِس بار جبکہ درسگاہ ،،قابلِ عمل یا یوں کہیئے کہ خواہشات پر مشتمل ناقابلِ عمل،ایک تازہ منصوبہ،،ڈاکٹرائن،، پرآغازِکار کی درپے ہے قدرت کی منشا پر انتخابات اگر ہوگئے ۔

تو اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے درسگاہ کے قابل ترین شاگردوں کے علاوہ ناپسندیدہ لوگوں کی کہاں گنجائش ہے جو اپنی حرکات سے رکاوٹ بن کر ہمہ جہتی پرمبنی ایک پْرکشش “ڈاکٹرائن” کی تاثیر اور اِفادیت کو زنگ آلود کرکے مدھم بنادیں ہاں البتہ مقررہ وقت پر اِنتخابات ہوں اِس ہدف کے سامنے بہت سے مسائل اور مشکلات حائل ہیں ۔

درسگاہ تو ہرگز نہیں چاہے گی کہ متعینہ معیاد کے اندر انتخابات ہوں اس کے برعکس درسگاہ کی نہ صرف خواہش بلکہ کوشش بھی ہے کہ انتخابات سے پہلے ڈاکٹرائن کامیاب ہوکر جوہر دِکھا دے اور ملکی مسائل جب سْدھارکی جانب گامزن ہوں تبھی انتخابات منعقد ہوں ۔

یہ بھی کہ اِس مقدس مقصدکے لئے اگر دو، تین سال درمیان میں گزرتے ہیں توگزر جانے دو لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے مقصد میں بہرطور کامیاب ہوں لہٰذا اِس پْرپیچ کیفیت کو اگر ایک نظرسے دیکھاجائے تو انتخابات کے انعقاد کو طول دینے کے لیے درسگاہ کے اہداف اور حکمت کے سامنے رکاوٹ پیدا ہو سکتے ہیں۔

جبکہ ایک اور تناظر میں مذکورہ بالا ٹارگٹ کے آگے رکاوٹیں بھی کھڑی ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں امریکہ اور مغرب کے لئے مارشل لاؤں اور غیرمنتخب حکومتوں کیساتھ چلنا کبھی سوال نہیں رہاہے مگر اب حالات نے چونکہ کروٹ بدلی ہے نہ سوویت یونین کا وجود ہے۔

اور نہ ہی افغانستان میں امریکہ اور نیٹو افواج موجود ہیں کہ درمیان میں بفراورسپر کے طور پر کسی مْعاون کی ضرورت ہو۔ اِس نہج پر دیکھا جائے تو انتخابات منعقد کرواکے انسانی اور جمہوری آزادیوں کی بحالی کی خاطر امریکہ اور مغرب سمیت عالمی مالیاتی ادارے درسگاہ پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں جن کو برداشت کرنا ظاہر ہے۔

کہ معاشی طورپر کمزوراور قرضدار پاکستان کی قدرت سے باہر ہے مگر اِس ممکنہ خدشے کو امریکہ اور چین کے درمیان جاری سردجنگ اور پھر سوویت یونین کے دور میں پاکستان کے کردارکے ساتھ جوڑکر دیکھ لیں تو صورتحال برعکس نظر آئیگی۔

حاصلِ بحث یہ کہ مْدبرین کے لئے اس مسئلے کو حل کروانا شاید اس قدر پیچیدہ نہ ہو مگر پھر ملک کے اندر موجود اندرونی تضادات،سیاسی عدم استحکام، اداروں میں سراْٹھاتے اختلافات اور امن عامہ کی مسلسل مخدوش کیفیت کا کیاکیجیے۔

اورپھر انہیں کس طرح متوازن رکھاجائے جو طویل دور کی پیداوارہیں اور لاینحل شکل اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ توجہ اور حل طلب نقطہ یہ ہے کہ ملک میں پروان چھڑتے اور جڑ پکڑتے شدّت پسندی اور دہشت گردی کے واقعات کی تدارک کس طرح ممکن ہو علاوہ ازیں پاکستان شاید واحد ملک ہے۔

جہاں ریاست اور حکومتوں کی پالیسیوں اور اہداف میں یکسانیت مفقود ہے جو دراصل مدبرین میں موجود اندرونی اختلافات اور مفادات کے ٹکراؤ کو ظاہرکرتی ہے ۔اِن حالات کے پیش نظر کس طرح ممکن ہے کہ بیرونی سرمایہ کار آکرپاکستان میں سرمایہ کاری کریں جبکہ وہ دیکھ رہے ہیں۔

کہ پاکستان کے سرمایہ کار اور اْمراء یہاں تک کہ لکھے پڑھے لوگ تک امریکہ، مغرب اور خلیج کی طرف رخ کر رہے ہیں۔ اِن تمام مشکلات کی موجودگی میں جواز تو بنتا نہیں ہے مگر پھر بھی امید کے سہارے چونکہ کاروبار ہستی رواں ہے اس لیئے مسائل کے حل کو بنیاد بناکر چلنا چاہئے البتہ اس درمیان میں فرصت نکال کر اپنی حرکات اور اداؤں پر غور کرنا اوّلین شرط ہے ۔