|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2023

عمران خان کو حمیدگْل سے لے کر فیض حمید تک ملکی سیاست کے باصلاحیت ترین ماہرین ( جو نہ صرف میدانِ سیاست بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق مثالی علم و آگہی سے دو گام آگے کمال کی حد تک دسترس ، مہارت اور عبور رکھتے ہیں) اور بالغ نظر دانشوروں نے اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔

کہ کب ، کہاں، کیسے اور کیا کرنا ہے؟ یہ تمام نایاب نسخے اْن کے دماغ میں حرف بہ حرف چسپاں ہو چکے ہیں لہٰذا وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مقتدرہ کی عملی تعاون اور رہنمائی کے بغیر نہ تو مملکتِ خدا داد پر کامیابی کے ساتھ حکومت کرنا ممکن ہے ۔

اور نہ ہی ماضی سے اب تک فقط آئین و قانون اور اصول و ضوابط کی پاسداری ، جمہوری روایات پر عمل اور عوام کے ووٹوں یا پھر سپورٹ کے بل بوتے پر کبھی کسی نے مملکتِ اللہ داد پر حکومت کی ہے؟ اسی لیے تو عمران خان مسلسل کوشاں ر ہے ہیں، کہنے دیجیئے کہ پا بہ جولاں ہونے کے باوجود وہ اِس وقت بھی نہ صرف یہ خواہش رکھتے ہیں بلکہ بضد ہیں کہ لوٹ کی بازار میں مقتدرہ چور ڈاکوؤں کو تختہ دار پر لٹکا کر عبرتِ نگاہ بناتے ہوئے دوبارہ صرف اْن کو گلے لگا کر اقتدار میں حصہ دار بنا دے۔

یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ خواہش اور طلب نہ صرف عمران خان کی بلکہ انکے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر تمام پارٹیوں، قیادت، نمائندوں اور سیاستدانوں کی بھی ہے کہ مقتدرہ سب کے ساتھ قطعِ تعلق کر کے عوام کے ٹیکس کی جمع پونجی کو لْٹانے کے پیہم عمل میں اْن کو شراکت دار بنا دے لہٰذا درپیش صورتحال کی موجودگی میں اس خواہش کو تو کنجِ دماغ سے نکال دینا چاہئے۔

کہ مملکت اللہ دادمیں سْدھار اور ترقی و پیش رفت ممکن ہے۔ اس کی آسان اور صاف ترین وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی اور پیش رفت میں علم و شعور اور حساسی ادراک رکھنے کے باعث کلیدی کردار سیاستدان اور ایک نہ ایک طرز پر سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وابستہ دانشور اور صحافی ادا کرتے ہیں سب جانتے ہیں۔

کہ سیاسی پارٹیاں قوم اور ملک کی حساس اور تعلیم یافتہ طبقات میں سے سماج کی معروضی ضروریات اور ان کے حل کی خاطر جنم لیکر سماجی مسائل کے حل کی کوششوں میں متواتر مصروف عمل رہتی ہیں ۔

اب مذکورہ معیار کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ایک دو نہیں بلکہ تمام پارٹیوں کو دیکھ لیجیئے جو مندرجہ بالا اجتماعی قومی اور جمہوری مقاصد اور ضروریات کی تکمیل کے برخلاف ذاتی ، خاندانی اور طبقاتی اغراض کے حصول کے لیے دراصل مقتدرہ کی ہی پیداوار اور ہمکار ہیں پھر یہ بھی کہ لوٹ کی”بازار” میں شراکت داری کی طلب کے سوا ان پارٹیوں اور انکی قیادت کے پاس دوسرے مثبت اقسام کے ایجنڈے اور غرض و غایت( جو پاکستانی قوم، جمہوری اقدار، انسانی آداب اور عوام کے لیے سود مند ہوں ) سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔

اس پس منظر میں شرمناک امر یہ ہے کہ اکثر اوقات مضبوط پارٹیوں ، دانشوروں اور مؤثر شخصیات کو بھی مقتدرہ حْکم دیتی ہے کہ’’ فلاں شخص اگرچہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، نہ کبھی سیاست اور سیاسی عمل میں شریک رہا ہے اور نہ ہی وہ سیاست کے اْصول و ضوابط اور آداب سے واقف ہے ۔

مگر وہ چونکہ ہمارا بندہ ہے اس لیے آپ لوگ انکے مدمقابل نہ صرف امیدوار نہ لائیں بلکہ ان کو سپورٹ کر کے کامیاب بنادیں‘‘۔ اِس دلیل کو ثابت کرنے کے لیے دماغ پر زور دے کر زیادہ سوچنے اور باریک بینی کیساتھ دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ معمولی سوچ بچار سے ایک دو نہیں بلکہ اس قسم کی لاتعداد مثالیں ، شواہد اور ثبوت مل سکتے ہیں۔

جب ملک میں جمہوری سیاست اور ووٹ کا تقدس رْسوائی کی اِس نہج تک پہنچ چکا ہے تو پھر انسان کس سے اور کہاں سے بہتری کی امید رکھے؟ جو سماجی سْدھار اور پیش رفت کے بارے گراں کو سر پر اْٹھا ئے جو ملک ، جمہوریت ،عوام ، اداروں کے استحکام اور اختیارات کے متعلق فکرمند رہے،

جو مہنگائی اور بیرورگاری کے خلاف اقدامات اْٹھا ئے یا ملک کو قرضوں کے عذاب کے بھاری بوجھ سے نجات دلا کر مہنگائی کو کم کر دے۔ان مقاصد کی تکمیل کے لیے تو سیاستدانوں اور معاشی ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس ملک میں سب کے سب نہ صرف لوٹ کی ڈگری رکھتے ہیں۔

بلکہ کرپٹ اعمال پر یقین رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کارِ خیر میں مصروف عمل ہیں لہٰذا اِن سوداگروں اور بکّالوں کو ،، جو دو ٹکّہ بلکہ موجودہ دور میں پاکستانی دو کلدار کے برابر کے انسان نہیں رہے مگر اِس وقت وزرا ء اور مقتدرہ کے سہارے ارب پتی سے اوپر کھرب پتّی بنے بیٹھے ہیں ۔ ان کوانسانی خدمت، فلاحی کاموں اور سماجی و سیاسی یا معاشی پیش رفت کیساتھ کیوں دلچسپی ہو؟ ہاں! البتہ ملک کے عوام اِن حالات سے ضرور تنگ ہیں اور وہ بلاشبہ تبدیلی چاہتے ہیں مگر یہاں پر جس تبدیلی کا ذکر کیا جارہا ہے، اْس تبدیلی سے مراد وہ تبدیلی نہیں ہے ۔

کہ جس میں فقط عمران خان ، پنکی،گوگی اور حلیمہ یا دیگر تمام پارٹیوں کی قیادت ، رشتہ دار اور کاردار مقتدرہ کے تعاون سے لْوٹ کی تاریخ رقم کر دیں اسکے برعکس، وہ تبدیلی جسے عوام عملی اور حقیقی معنوں میں تبدیلی کہتے ہیں کہ جس سے عوام اور خواص یکساں طور پر فیض یاب ہو سکیں،عوام وہی تبدیلی چاہتے ہیں۔ ویسے ملک کے متوسط اور غریب طبقات کو واقعتا ایک پارٹی کی ضرورت ہے۔

جو لوٹ کے اِس مسلسل عمل میں حصہ دار بننے کے بجائے اس لوٹ کے سامنے ایک طاقت بن کر ڈٹ جائے اور اْن کو جڑ سے اْکھاڑ کر ختم کر دے ،جو وزراء کی فوج ظفر موج اور انکی شاہ خرچیوں کو روکے اور بیوروکریسی کی عیاشیوں کو لگام دے، جو روزِ محشر کے بوجھ کے برابر کئی ناکارہ اور غیر ضروری اداروں اور انکے ذیلی شاخوں کو ختم کر دے تاکہ سازشی اقدامات کی تدارک کی جاسکے جو اشرافیہ کو ٹیکس نیٹ ورک میں لائے، ۔.

جو ملک میں عوام کے اقتدار کے دشمنوں، زرپرست ،ووٹ چوروں، ٹپہ مافیا کے سرغنوں، بخشش اور مٹھائی کے طلبگاروں کو دار و رسن تک پہنچا کر دیدہِ عبرت بنا دے، جو سماجی پسماندگی کی ذمہ داروں کے خلاف احتساب کے عمل کو مخصوص دور تک محدود رکھنے کے بجائے ابتدا سے انتہا تک کسی انجام تک پہنچانے کے روادار ٹھہریں! یہی وہ تقاضے ہیں جن پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے،یہی وہ حقیقی عوامی مقاصد ہیں جن کو وہ لوگ پورا نہیں کر سکتے جو اقتدار تک رسائی کی خاطر طالع آزماؤں کو “ڈیڈی” پکارتے رہے ہیں۔

یا اِس قبیل کے لوگوں کے گھروں پر چاکری کی خدمات سرانجام دینے کے عوض سیاستدان بننے کی خواہش رکھتے ہیں،مگر اسٹیبلشمنٹ کے اِن ہرکاروں سے مطلوبہ نتائج اور مذکورہ دْور رس تبدیلیوں کی امید رکھنا عبث ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ہنوز یہی پارٹیاں سرگرم عمل ہیں اور مستقبل قریب میں کسی متبادل پارٹی کے ظہور کے آثار بھی دکھائی نہیں دے رہے۔

جو ملک کے عوام کی قیادت کر سکے، اس لیے موجودہ پارٹیوں کا ہونا نہ ہونا ایک جیسا ہے اور موجودہ قیادت چونکہ ذاتی ، خاندانی اور طبقاتی حدود اور قیود سے آگے نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتی لہٰذادرپیش حالات ، معروضیات اور صف بندیوں کے مطابق ایک پارٹی کا ظہور وقت کی اہم ضرورت ہے۔

جو حالات کو سرعت کیساتھ ملک اور عوام کے حق میں تبدیل کر سکے تاوقتیکہ عوام کے پاس ایک نمائندہ پارٹی نہ ہو تب تک ملک کے عوام موت اور زیست کی کشمکش میں اذّیت ناک زندگی گزارتے رہیں گے ۔ یاد رہے کہ منظم اور مربوط رہنمائی کے بغیر عوام جہتوں کی شکل میں طوائف المْلوکی تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن اس سے آگے منصوبہ بندی کے تحت شعوری طور پر کچھ عملی اقدامات اٹھانے کی سکت اور صلاحیت پیدا نہیں کرسکتے اور مزید برآں شْومئی قسمت کہ یہ اقدامات اور مقاصد موجودہ سیاسی اور غیر سیاسی دونوں قیادت کے ایجنڈے میں سرے سے شامل ہی نہیں ہیں۔