|

وقتِ اشاعت :   November 11 – 2023

دانشور لوگ ( درباری اور پالشیئے نہیں) کہتے ہیں کہ بات اگر سچ ہو تو اْس میں رسوائی کا پہلو شامل ہونے کا خوف کیوں ہو ؟ لوگ چاہے سچ پسند کریں یا ناپسندیدگی کااظہار کریں ، اتفاق کریں یا شدید ترین اختلاف رکھیں لیکن بقول ایڈورڈ سعید سچ بولنا اور جھوٹ کو آشکار وافشاں کرنا دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سے مْدعا زیادہ نہیں بس یہی ہے کہ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ سمیت اسٹیبلشمنٹ بالخصوص سیاسی قیادت کی ذمہ داری ریاست کے دیگر عناصر کی بہ نسبت چونکہ زیادہ ہوتی ہے اس لیے ملک کی سیاسی قیادت کو 75 سالوں سے زیادہ عرصہ گزرجانے، ( جو ایک انسان کی عرصہِ حیات سے بھی زیادہ ہے) ہر قسم کے حالات اور گرم و سرد برداشت کرلینے کے بعد کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی موڑ یا موقع پر جوش اور جذبات ( ویسے 75 سال کے بعد جوانی کی جوش اور جذبات کو ختم ہو جانا چاہیئے) کو پرے رکھ کر خود بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیئے کہ پاکستان میں عوام دشمن کہنے دیجیئے کہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے جو تجربات بارہا دہرائے جاتے رہے ہیں یا اِس وقت بھی اْسی تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیئے مزید بندوبست اور تجربوں کے آثار صاف دکھائی دے رہے ہیں وہ آخر کب تک چلیں گے؟ کیا پاکستان کے عوام یہ انسانی استحقاق نہیں رکھتے کہ وہ امن اور سکون کیساتھ زندگی گزاریں؟ یہ بھی کہ وہ اگر مْروجہ ناہموار اور استحصالی نظام کے ہوتے ہوئے کمیونزم کی مثالی اور جنّت نظیر تصوراتی یا حقیقی آسائشوں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے تو نہ سہی لیکن ملک کی معمولی پیش رفت اور ایک گام آگے بڑھنے پر اْس مقام تک پہنچ جائیں جہاں ان کو کم سے کم ترین اور زندہ رہنے کے لیے فقط بنیادی ضروریات زندگی میسر ہو سکیں جس سے عوام کے لیے جانوروں سے نسبتاًبہتر انسانوں کی طرح اگر نہیں تو انسان نما نہج پر زندگی گزار نا ممکن رہے، اس کے ساتھ یہ نکتہ بھی مربوط ہے کہ ملک کے اربابِ اختیار خصوصاّ سیاسی قیادت کو اس پر سیرِ حاصل غور کرنا چاہیئے کہ تہیِ دستی کی موجودہ صورتِ حال میں جبکہ ہمارے حکمران تجربہ کار اور بْزرگ فقیروں کی طرز پر ہاتھ میں مْریدی کشکول لیے در در صدائیں دے رہے ہیں اور اس وقت وہ جن عرب ممالک کی جانب سے بلوچستان میں مشروط سرمایہ کاری یا یوں کہیئے کہ معاشی گرداب سے نکالنے کے لیئے امداد اور تعاون کی آس لگائے بیٹھے ہیں کیا ان ممالک کی دولت اس قدر اضافی ہے کہ وہ ہر بار ہمیں امداد دے کر معاشی بحرانوں سے نکال دیں گے جبکہ اس سلسلے میں کیا ہماری اپنی ذمہ داری بس یہی ہے کہ ہم یکے بعد دیگرے اس اْمید پر معاشی بحران پیدا کرتے جائیں کہ امیر عرب یا ترقی یافتہ ممالک آ کر ہمیں ہماری اپنی پیدا کردہ بحرانوں سے نکال کر، بچالیں گے مزید یہ کہ ہمیں بحیثیتِ انسان خود بھی جان لینا چاہیئے کہ ایک ایسے ملک میں عرب یا امیر ممالک کیوں سرمایہ کاری کریں گے جہاں ہر طرف مسائل، مشکلات ، قانونی پیچیدگیاں ، کشیدگیاں اور دہشت کی غیر مبہم اور واضح نقوش پائے جاتے ہیں جہاں پالیسیوں میں تسلسل سرے سے ہی ناپید ہے جس کے سبب ملک کے زردار اور اْمراء سرمایہ سمیت پاکستان سے بھاگ کر بیرونی ممالک میں نہ صرف سرمایہ کاری کرنے بلکہ آباد ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس تناظر میں جلد یا بدیر ملک کی پالیسیوں میں تسلسل پیدا ہو سکے اس قسم کے آثار اور امکانات بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ عہدِ رفتہ میں جو کچھ ہوتا رہا ہے ، وہ سب قصہِ پارینہ ہے ، دوبارہ اسکے امکانات نہیں ہیں۔ جہاں تک سیاسی محاذ کا تعلق ہے تو ریاستی اداروں کے درمیان اندرونی اختلافات کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ تضادات مخاصمت کی حد تک موجود ہیں جو دنیا میں کسی سے پوشیدہ بھی نہیں بلکہ سب پر عیاں ہیں ان حالات میں اتنی دولت تو اِس دنیا میں کسی کے پاس بھی نہیں ہے اور اگر دولت ہو بھی تو وہ اپنی دولت کو بار بار ایک ایسی قوم اور ملک پر خرچ کر کے کیوں ضائع کر دیں گے جو آزمائشوں سے گزر کر ہر بار اپنی معیشت کی سْدھار اور اصلاح میں ناکام ہو چکا ہے اِس سے بہتر تو وہ یہی سمجھیں گے کہ اپنی دولت کو اپنے عوام کے فلاحی اور رفاحی اداروں اور سرگرمیوں پر خرچ کریں۔
حالات اور معروضیات سے لگتا تو نہیں ہے لیکن پھر بھی ہم کہیں گے کہ پاکستان کے مقتدر اداروں اور سیاسی قیادت کو عرب ممالک کی جانب سے مشروط سرمایہ کاری پر رضامندی کی پیشکش کو امداد اور تعاون سے زیادہ خدائی داد سمجھ کر قبول کرتے ہوئے اس بار ( وہ جو واپسی پر نواز شریف سناتے رہے ہیں) تہیّہ کر لینا چاہیئے کہ یہ آخری امداد ہے اِس کے بعد وہ ملک میں کرپشن سمیت اختیارات کی ناجائز استعمال کے تمام تر راستوں کو بند کر کے حالات کو معمول کے مطابق لائیں گے اور کسی بھی طاقتور کو ماضی کے تجربات نہیں دہرانے دیں گے لیکن نامدار پہلوانوں کے ساتھ رشتہ داریاں ہوں اور طاقت کی نمائش نہ ہو یہ خواہش تو قوانینِ قدرت کے منافی ہے ۔ ملک میں خود تنقیدی اور ذاتی احتساب کے تحت دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ماضی کے تجربات کے نتائج کیا ہیں؟ ملک کے فیصلہ اور پالیسی سازوں نے افغان ثور انقلاب اور افغانستان پر سوویت روس کے قبضے سے لیکر طالبان کے دورِ حکومت تک افغانستان کے ساتھ مکمل تعاون کیا ہے مگر غور کیجیئے کہ اس یک طرفہ دوستی اور تعاون کے جواب میں ہمیں مخالفت اور دشمنیوں کے علاوہ کیا مل رہا ہے؟ لہٰذا افغان پالیسی کو ذاتی فرمائشوں پر ہم کامیاب تو نہیں کہہ سکتے۔یہی احوال دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کے ہر باشعور اور زندہ ضمیر شخص کو علم و ادراک ہے کہ پاکستان کو درپیش اندرونی اور بیرونی حالات متقاضی ہیں کہ ملک کی سیاسی اور خصوصاًغیر سیاسی قیادت نیک نیتی سے کام لیکر ناکام اور ناکارہ پالیسیوں کو یکسر تبدیل کر کے اْن کو موجودہ دور کی معروضی ضروریات اور تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ مزید براں کہ آزاد اور کامیاب ممالک کی طرح پالیسیوں کی ترتیب قانونی اور ادارہ جاتی طور پر جس کی ذمہ داری ہے صرف وہی ادارہ پالیسیاں ترتیب دے اور جواب دہ بھی رہے، مگر یہاں پر لمحہِ فکریہ ہے کہ پالیسیوں کی ترتیب اور فیصلوں پر عمل کے سلسلے میں اس وقت بھی ملک کی سیاسی قیادت کے درمیان اختلافات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب اب تک کی اقدامات سے لگتا ہے کہ ملک کی غیر سیاسی قیادت عمران خان کو معاف کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اِس حد تک تو ان لوگوں کا طرز عمل پھر بھی قابلِ فہم ہے مگر اس سے آگے نواز شریف، جہانگیر ترین، پرویز خٹک اور باپ وغیرہ کے متعلق نرم گوشہ رکھنا یا پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے اراکین کو دبا کر مذکورہ بالا پارٹیوں میں شامل ہونے پر مجبور کر دینا یہ طرز عمل ہر گز مناسب نہیں ہے اور یہ کہاں کی منطق ہے کہ ماضی میں سرکار کے چند نوکروں پر اگر ناقابلِ معافی اقسام کے الزامات ہوں تو سزا تو دور اِس ملک میں کوئی ان ملازمین کا نام تک نہیں لے سکتا۔ اس قدر قانونی تحفظ تو موجودہ دور میں شہنشاہیت میں شاہی خاندان کے افراد کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کچھ بھی کریں اور ان سے باز پرس اور سزا نہ ہو لیکن اِس ملک میں جن لوگوں کو تحفظ اور رعایت حاصل ہے وہ نہ تو کسی کے سامنے جواب دہ اور نہ ہی پوشیدہ ہیں۔ ان حالات میں فروری کے مہینے میں انتخابات اگر ہو گئے تو کیا ضمانت ہے کہ ملک سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے نکل سکے گا؟ وہ عناصر جو ہمارے لوگوں کو آنکھوں سے زیادہ عزیز رہے ہیں ، انکو پالتے اور تربیت دیتے رہے ہیں اب اْن عناصر کی جانب سے رونما ہونے والے واقعات اگر بدستور اور پے در پے اسی طرح ہوتے رہے تو کیا ضمانت ہے کہ متعینہ تاریخ پر انتخابات منعقد ہو سکیں گے؟