|

وقتِ اشاعت :   November 14 – 2023

پاکستان سے جیسے ہی افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مسلح افواج پر حملوں میں شدت دیکھی گئی ہے جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ افغانستان میں موجود طالبان حکومت کسی دباؤ میں آنے کے بجائے دباؤ میں رکھنے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع گوادر کے علاقے پسنی میں بلوچ عسکریت پسندوں کے فوجی قافلے پر حملے کے نتیجے میں 14 فوجی جوان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اسی روز ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں بم دھماکوں میں ایک فوجی سمیت 6 افراد شہید اور 24 زخمی ہو گئے۔4 نومبر کو پاک فضائیہ کے میانوالی ٹریننگ ایئر بیس پر حملہ کیا گیا جس میں فوری کارروائی میں 9 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، اسی طرح 6 نومبر کو قبائلی ضلع خیبر کی وادی تیراہ میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں ایک اعلیٰ فوجی سمیت افسر سمیت چار فوجی شہید ہوئے۔
پاکستان کی افغان پالیسی کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا ہے بالخصوص پنجاب کا دانشور اور صحافی حلقہ اس پر کھل کر بات کر رہا ہے رؤف کلاسرا اپنے کام میں لکھتے ہیں کہ اب چار دہائیوں کے بعد ہم اس پورے عمل کو ریورس کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ نتائج نہیں نکلے جس کی ہمیں توقع تھی جن اسٹریٹجک نتائج کے لیے ہم نے چالیس سال بوجھ اٹھایا اب اس نے ہماری چیخیں نکلوادی ہیں ریاست کی سیکیورٹی خطرے میں پڑ گئی ہے جبکہ کابل میں طالبان حکومت کو بنے ہوئے ابھی صرف دو سال ہوئے ہیں۔نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اپنی پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کہ کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اور خودکش بم حملوں میں کئی گنا اضافہ ہواہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان کی زمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور تحریک طالبان کو سپورٹ مل رہی ہے باوجود اس کے پاکستان نے مشکل حالات میں افغانستان کا ساتھ دیا ،40 لاکھ پناہ گزینوں کو پناہ دی، موجودہ طالبان حکومت کے بعد نقل مکانی کرکے آنے والے 8 لاکھ افغانی شہریوں کو عارضی شہریت کے کارڈ جاری کیے گئے افغان قیادت کی دھمکیوں کے باوجود پناہ گزینوں کی واپسی کی پالیسی واپس نہیں ہوگی۔
افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے جو کہا ہے اس سے وہ طالبان کی قیادت کو یہ پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کہ انہیں پاکستان یا تحریک طالبان میں سے کسی ایک کو چننا ہو گا کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ بقول درانی کے تحریک طالبان پاکستان کے چھ ہزار جنگجو افغانستان میں فیملیوں سمیت سکون سے رہ رہے ہیں۔
ایئر فورس کے سابق کمانڈر اور تجزیہ نگار شہزاد چوہدری کہتے ہیں افغانستان سے ٹرینڈ لوگ یہاں حملے کے لیے بھیجے جاتے ہیں پاکستان ان کی اسٹریٹجک ڈیپتھ بن گیا وہ کہتے ہیں یہ علاقہ ہمارا ہے ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے کیا مشکل ہے ایسا کرنا جیسا امریکہ نے افغانستان میں کیا یا ڈرون پاکستان میں کرتے رہے لیکن کوشش یہ ہے کہ افہام تفہیم کے ساتھ معاملات ٹھیک ہوجائیں۔ شہزاد چوہدری اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ استعمال کیا جارہا ہے جو افغانستان میں امریکہ چھوڑ گیا تھا۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر سردیوں کے ساتھ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ دہشت گرد شدید سردی کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے پہاڑی علاقوں سے نیچے اتر آتے ہیں، اس حوالے سے ماہرین آرمی پبلک سکول پشاور اور سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کا قتل کا حوالہ دیتے ہیں جو سردیوں میں ہوئے۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ موسم سرما شہری گوریلا جنگ کے لیے موزوں ہے کیونکہ اس دوران عسکریت پسند برفانی پہاڑوں سے اتر کر شہری مراکز میں اپنے سلیپر سیلوں میں وقت گزارتے ہیں ان میں سے کچھ تو خاموش رہتے ہیں اورکچھ بڑے حملوں کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں اور جب بھی موقع دیکھتے ہیں ان پر عمل کرتے ہیں۔
اس وقت جب 8 فروری کو انتخابات کا بھی اعلان ہوچکا ہے سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاسی مہم شروع کردی ہیںان دنوں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں امن و امان ایک بڑے مسئلے کی صورت میں موجود ہے ، جہاں تحریک طالبان پاکستان، اس سوچ کے دوسرے مذہبی شدت پسند اور بلوچ عسکریت پسند سرگرم ہیں۔ ان میں ٹی ٹی پی انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش بھی کر سکتی ہے کیونکہ وہ انتخابات اور جمہوریت کو “غیر اسلامی” قرار دیتی ہے جبکہ بلوچ عسکریت پسند عوام کو الیکشن سے دور رہنے کی ہدایت کرتے آئے ہیں۔
اگر ہم جائزہ لیں تو پاکستان میں گزشتہ تین انتخابات میں دہشت گرد حملوں کا ایک سلسلہ دیکھا گیا ہے جس میں 2007 میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کی جان گئی ، اس سے قبل کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ کیا گیا تھا جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے، بلوچستان میں 2008 کے انتخابات کا عسکریت پسند تنظیموں نے بائیکاٹ کیا اور نتیجے میں ٹرن آوٹ کم رہا۔ 2013 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کے پی سے لیکر کراچی تک نشانہ بنی اور اس کے سینئر رہنما بشیر بلور ہلاک ہوئے اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا بھی شکوہ رہا کہ انہیں محدود کیا گیا، اس کے بعد 2018 کے انتخابات میں بھی عوامی نیشنل پارٹی تحریک طالبان کے نشانے پر رہی اور بشیر بلور کے بیٹے ہارون بلور ہلاک ہوئے ۔بلوچستان میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما نوابزادہ سراج رئیسانی ایک خودکش حملے میں ہلاک ہوئے اس کے علاوہ بھی اے این پی، پیپلز پارٹی جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
افغانستان سے کشیدگی اور کالعدم تحریک طالبان اور بلوچ عسکریت پسندوں کے حملوں میں آنے والی شدت سے اندازہ یہی لگایا جارہا ہے کہ ان انتخابات پر خوف اور خطرے کے خدشات منڈ لا رہے ہیں ماضی میں 2013 میں نیشنل ایکشن پلان موجود تھا طالبان کے خلاف بھرپور آپریشن کی وجہ سے وہ کمزور پڑ گئے تھے اور افغانستان کی حامد کرزئی حکومت سے اگر دوستانہ تعلقات نہیں بھی تھے تو اس قدر صورتحال کشیدہ نہیں تھی کہ ان کی یہاں پراکسی وار ہو۔
تحریک طالبان پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن کو دھمکیاں دے چکی ہے جے یو آئی کے رہنما مولانا فضل الرحمان ایک حملے میں بال بال بچ گئے اے این پی ابھی تک نشانے سے نہیں ہٹی جبکہ اب ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش اور بعض دیگر علاقائی گروپس بھی فغال ہوچکے ہیں۔
جیسے کہ وزیر اعظم کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ افغان پناہ گزینوںکی واپسی کا سلسلہ نہیں رکے گا لیکن اس میں سست روی ضرور نظر آرہی ہے اوربالخصوص کراچی میں رضاکارانہ واپسی والوں کو ٹرانسپورٹ فراہم نہیں کی گئی جن کو بغیر دستاویزات کے گرفتار کرکے ببھیجا گیا ہے ان کی تعداد بھی ساڑھ چار سو سے زائد نہیں اب اس میں دانستہ کوشش ہے یا غیر غیر دانستہ اس کا فی الحال اندازہ لگانا مشکل ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام آباد، لاہور، کوئٹہ اور پشاور سمیت کہیں نام نہاد سول سوسائٹی پناہ گزینوں کے لیے سرگرم نہیں لیکن کراچی میں مظاہرے بھی کیے جارہے ہیں عدالت سے بھی رجوع کیا گیا ہے بظاہر تو عورت مارچ کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے افغان خواتین اور بچے متاثر ہوں گے اس لیے وہ ان کی جبری نقل مکانی کے خلاف ہیں۔کئی سیاسی جماعتوں نے بھی چپ اختیار کر رکھی ہے جیسے مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، ایم کیوایم اور بلوچ قوم پرست جماعتیں، ماضی میں پناہ گزینوں کے معاملے پر اختر مینگل ہوں یا ڈاکٹر جذباتی بیانات پڑھنے کو ملتے تھے لیکن اس وقت بالکل خاموشی ہے حالانکہ ان جماعتوں کا خدشہ رہا ہے کہ ان کی وجہ سے بلوچستان کی ڈیمو گرافی تبدیل ہو رہی ہے۔