|

وقتِ اشاعت :   November 20 – 2023

ہمارے پیارے شہر کراچی میں موسم کا مسئلہ ایسا ہے کہ جب تک کوئٹہ سے سائبیریائی ٹھنڈی ہوائیں نہیں پہنچتی ہیں یہاں کا موسم اور ہمارا مزاج “گرم” ہی رہتا ہے۔ اس مرتبہ جب ہمارے ہاں کے سرد مزاج دانشور اور اردو زبان کے بااسلوب شاعر عیسیٰ بلوچ نے ماہ نومبر میں کوئٹہ کی “سرد شاموں ” کو آزمانا چاہا تو “گرماگرمی” میں ہم بھی ان کے پیچھے چل پڑے۔ پلٹ کر دیکھا تو بلوچی زبان کے نوجوان شاعر و ادیب اصغر لعل کو بھی کمر باندھے تیار پایا۔
کراچی کے سینئیر صحافی صدیق بلوچ مرحوم نے 1990 میں جب”ڈیلی ڈان“ چھوڑ کر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ”ڈیلی بلوچستان ایکسپریس“ کا اجراء کیا تو بہتوں نے اسے “گھاٹے کا سودا” قرار دیا تھا لیکن چند سالوں میں انہوں نے اپنی ذہانت، مسلسل محنت اور اپنے سابقہ تجربات کی روشنی میں اس اخبار کو کامیابی کے راستے پر ڈال دیا۔ 2001 میں اسی ادارے سے اردو روزنامہ “آزادی” جاری ہوا۔ آج یہ دونوں روزنامے کوئٹہ کے بڑے اور معیاری اخبارات میں شمار کئے جاتے ہیں۔
ہمارے جانے کی بات نہ جانے کیسے یہاں کے سرگرم صحافی اور صدیق صاحب کے فرزند عارف بلوچ تک پہنچی تو انہوں نے کوئٹہ میں روزنامہ “آزادی” کے ایڈیٹر اپنے بھائی آصف کو کراچی والوں کی “خبرگیری” پر لگادیا۔

آصف میاں ایک سنجیدہ، ذمہ دار اور بااخلاق نوجوان ہیں۔ مرحوم صدیق بلوچ صاحب کے لگائے ہوئے پودے کو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک تناور درخت کی شکل دینے میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی آصف نے ہمیں کوئٹہ پریس کلب کے صدر اور بہت ہی نفیس، خوش مزاج اور پرخلوص انسان عبدالخالق رند کے حوالے کردیا جنہوں نے فوراً ہمیں “سر پر” بٹھادیا یعنی کلب کے اوپر ہی پریس لاجز میں کھپادیا۔
کوئٹہ ہمیشہ سے مہر و محبت اور سنجیدہ و تجربہ کار قوم پرست سیاستدانوں، ترقی پسند دانشوروں، مفکروں اور ادیب و شاعروں کا شہر رہاہے۔

یہاں کی ادبی انجمنیں، لٹ خانہ اور سنگت کی محفلیں روشن خیالی اور ترقی پسندی کے ایسے سلسلے ہیں جو کئی عرصے سے جاری و ساری رہی ہیں۔ اس پس منظر میں غنیمت جان کر ہم نے چار اہم شخصیات سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔


بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے بانی اراکین میں شامل ڈاکٹر نعمت اللہ گچکی سے ان کی رہائشگاہ میں ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر نعمت اللہ بلوچستان کے ڈی جی ہیلتھ رہ چکے ہیں۔ ہمارے برعکس وہ آجکل پرسکون ریٹائرڈ لائف گزار رہے ہیں۔ انہوں نے بلوچستان اور دیگر موضوعات پر انگریزی، اردو اور بلوچی زبانوں میں کئی کتابیں تحریر کی ہیں۔ دسمبر میں کوئٹہ سے “ناکو گوریچ” (سرد ہواؤں کے روسی اور بلوچی نام) کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب بھی کراچی پہنچتے ہیں جہاں اس درویش صفت انسان سے کبھی کبھی ملاقات کا اعزاز ہم بھی حاصل کرتے ہیں۔

جب ہم نے ان کو اپنے کوئٹہ وارد ہونے کی خبر دی تو اسی شام کو اپنے بیٹے سکندر کو بھیج کر ہمیں گھر بلایا اور ہماری خوب خاطرمدارات کی۔ اس موقع پر جہاں دنیا بھر کی باتیں ہوئیں وہیں ماضی میں بی ایس او کے سنہرے دنوں کی یادیں بھی دہرائی گئیں۔


لاہوریوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی نے لاہور نہیں دیکھا (تو سمجھ لو کہ) وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کے بارے میں ہم کراچی والے یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی (ادب دوست) شخص کوئٹہ آیا اور ڈاکٹر مری سے نہیں ملا تو وہ یوں سمجھ لے کہ اسے ابھی پیدا ہونا ہے! ہم تو نہیں مگر ساتھی عیسیٰ بلوچ اور اصغر لعل چونکہ “باادبوں ” میں شمار ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ملنے کا قصد کرلیا۔ ہوا یہ کہ دوسرے دن جب سردی بڑھ چکی اور تیز بارش بھی ہورہی تھی تو ڈاکٹر مری خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے آئے اور ہمیں پریس کلب سے ZVR ریسٹورنٹ لے گئے۔ لنچ کے دوران بھی انسانی اقدار پر ان کی فصیح و بلیغ گفتگو سے ہمارے ساتھیوں کے علاوہ مارکسی مصنف پروفیسر جاوید اختر اور زیر تعلیم دو نوجوان جمیل بزدار و انس بلوچ فیضیاب ہوئے۔ اس دوران ہم گم سم بیٹھے لرزاہٹ کا شکار ہوتے رہے۔ وجہ (جو ہماری سمجھ میں آئی وہ) اگر سردی کی شدت نہیں تو ڈاکٹر صاحب جیسے غیرمعمولی اور ایک معتبر مفکر کی “مرعوبیت” ہی تھی!
واجہ ایوب بلوچ کو کیا کہا جائے۔۔۔۔۔

ایک اسکالر،محقق، مدبر، دانشور، ادیب یا ریٹائرڈ اعلیٰ عہدہ پر فائز ایک بیوروکریٹ۔ بلاشبہ وہ یہ سب کچھ ہیں۔ جب ان کا بیٹا (بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ جرنلزم کے لیکچرر) فہیم ہمیں اپنے گھر لے گئے تو ایوب صاحب کو پہلے ہی سے کھڑا منتظر پایا۔ انہوں نے گرمجوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور پھر قریب ہی اپنے ادارے Studies Balochistan of Institute کے وسیع ہال میں لے گئے جہاں ایک بہت بڑی لائبریری میں ہزاروں کتابیں ترتیب سے صاف و شفاف الماریوں میں سجی ہوئی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ دیگر موضوعات کے علاوہ زیادہ تر کتابیں بلوچستان کے ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں جہاں ریسرچرز آکر فیضیاب ہوتے ہیں۔ واجہ ایوب بلوچستان میں دریافت شدہ ہزاروں سال پرانی تہذیب مہر گڑھ کے اسپیشلسٹ ہیں۔ آثارٍ قدیمہ سے انہیں بہت لگاؤ ہے (شاید اسی وجہ سے ہمیں بھی بہت عزیز رکھتے ہیں!)۔ اس دن قابل احترام واجہ ایوب ایک علم دوست شفیق استاد کے ساتھ ساتھ ایک فراخدل میزبان بھی ثابت ہوئے۔


ڈاکٹر علی دوست بلوچ میڈیکل کے شعبہ میں تو اسپیشلسٹ کی حیثیت سے ممتاز مقام رکھتے ہیں لیکن ادبی دنیا میں بھی کافی نام پیدا کرچکے ہیں۔ اردو اور بلوچی زبانوں میں نثر اور شاعری کی صنفوں پر بھی طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں، اور پھر روزنامہ جنگ کوئٹہ میں ہفتہ وار کالم بھی لکھتے ہیں۔

ان کالموں پر مشتمل ان کی مشہور دو کتابیں ” بلوچی دیوان” اول اور دوم شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ جب وہ ہمیں سورج ڈھلے عثمانیہ ریسٹورنٹ (کراچی فیم) لے گئے تو چکن سوپ کی “چسکیوں ” میں ہمیں بتایا کہ “بلوچی دیوان سوم” اشاعت کے آخری مراحل میں ہے۔ ڈاکٹر علی دوست بہت ہی نفیس، بردبار اور پرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ اگرچہ پہلی بار ہمیں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا لیکن انہوں نے ہمیں اتنی مہرومحبت سے نوازا کہ جب الوداع کہنے کا موقع آیا تو محسوس ہوا جیسے اپنے کسی بہت ہی قریبی اور عزیز دوست سے بچھڑ رہے ہیں۔


10 نومبر کو بلوچی اکیڈمی وزٹ کرنے کی دعوت ہمیں موجودہ چیئرمین سنگت رفیق کی جانب سے ملی۔ اس اکیڈمی کی بنیاد 1958 میں واجہ عبدالقیوم نے کراچی شہر میں رکھی تھی۔ مقصد بلوچی شناخت کو اجاگر کرنا اور بلوچی زبان و ادب کو فروغ دینا تھا۔ 1995 میں جب معروف بلوچ دانشور اور مصنف واجہ جان محمد دشتی نے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو اس ادارہ کی سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ اکیڈمی کی موجودہ خوبصورت عمارت ان ہی کے دور میں وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کے جاری کردہ فنڈ سے 1997 میں تعمیر ہوئی۔ چیئرمین سنگت رفیق نے مزید بتایا کہ ہر سال یہ اکیڈمی تقریباً 30 کتابیں شائع کرتی ہے۔

اس کے علاوہ کانفرنسوں اور سمیناروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اس ادارہ کے منتخب چیئرمینوں میں بلوچی زبان و ادب کی ممتاز شخصیات شامل رہی ہیں۔ یہاں طالبعلموں اور ریسرچرز کے لئے جدید سہولتوں سے مرصع ایک بہت ہی شاندار لائبریری بھی قائم ہے جہاں ہم گئے اور واقعی قابل تحسین پایا۔۔ اس موقع پر عبدالخالق رند بھی وہاں پہنچ چکے تھے جس کے بعد بلوچی زبان و ادب اور ثقافت کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا جس کا سلسلہ لنچ کی میز پر بھی جاری رہا جس میں اکیڈمی کی نمائندگی سنگت رفیق، پروفیسر محمد صدیق، ممتاز یوسف اور ہیبتان نے کی۔ جب ہم وہاں سے اچھے تاثرات لے کر رخصت ہوئے تو یہ بھی محسوس کیا کہ بلوچی اکیڈمی جیسے متحرک قومی ادارہ کی سرگرمیوں کو مزید پھیلانے اور توسیع کی ضرورت ہے۔
اب کچھ تذکرہ واجہ یارجان بادینی کا ہوجائے جنہوں نے ہمیں پریس کلب لاجز سے “اچک ” کر اپنی گاڑی میں شان بان سے بٹھایا اور رخ نوشکی کی جانب کردیا۔

یارجان ایک مخلص یار باش قسم کے آدمی ہیں۔ لانبہ قد، سرخ و سفید چہرہ اور بہت ہی شہدیں زبان میں گفتگو کرنے والے ایک وسیع القلب سینئرصحافی ہیں۔

لکھاری بھی ہیں اور پچھلے بیس پچیس سالوں سے اردو و بلوچی زبانوں میں ایک رسالہ ماہتاک “زند” باقائدگی کے ساتھ شائع بھی کرتے ہیں۔ مگر ان سے متعلق سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ “باہر کی دنیا” میں بلوچی شناخت کے بہت ہی سرگرم “سفیر” ہیں جنہوں نے ترکمانستان، اومان اور افریقہ میں بسے ہوئے قدیمی بلوچ قوموں کا کھوج لگا کر بلوچستان میں ان کے روٹس، موجودہ طرز زندگی اور رہن سہن پر کتابیں تحریر کی ہیں۔ وہ خود بلوچستان میں ڈسٹرکٹ نوشکی سے تعلق رکھتے ہیں۔


نوشکی کوئٹہ سے شمال مغربی حصہ میں سطح سمندر سے تقریباً 3000 فٹ بلندی پر واقع کم آبادی کا ایک چھوٹا سا خوبصورت شہر ہے۔

ایک عنصر جو بلوچستان کے دیگر شہروں کے مقابلے میں نوشکی کو ممتاز حیثیت بخشتا ہے وہ یہ کہ یارجان بادینی کے علاوہ فکر و نظر اور ادب کی دنیا میں بڑے پایہ کی شخصیات نے اس ڈسٹرکٹ میں آنکھیں کھولی ہیں جن میں واجہ عبداللہ جان جمالدینی، میر گل خان نصیر، منیر احمد بادینی اور عبدالواحد بندیگ جیسی ہستیاں شامل ہیں۔

11 نومبر کی شام کو ہم نوشکی پہنچے تو موسم کچھ زیادہ ہی خوشگوار تھا۔ یہ خوشگواری کی فضا میر گل خان نصیر کے نام سے نئی تعمیر شدہ لائبریری میں بھی قائم رہی جہاں اس کے انچارج واجہ لطیف الملک نے ہمیں خوش آمدید کہا اور “کتابی ماحول” میں لائبریری کی تفصیلات بتائیں۔ یہیں پر اسمارٹ کامریڈ حمید سے بھی تعارف ہوا جنہوں نے پیشہ ورانہ مہارت اور غیر معمولی چستی کے ساتھ وہاں ایک ایک لمحہ کو ویڈیو میں محفوظ کرلیا۔ ان کی یہ مہارت اور چستی دوسرے دن نوشکی پریس کلب کے ہال میں مقبول عوامی شاعر مبارک قاضی کی یاد میں ہونے والی تقریب میں بھی نظر آئی۔

اس تقریب کے روح رواں یارجان تھے جن کی زند اکیڈمی نے نوشکی پریس کلب کے اشتراک سے اس نشست کا اہتمام کیا جس کی نظامت کے فرائض ایک مستعد نوجوان شاعر و ادیب وحید عامر نے بخوبی انجام دئیے۔

یارجان کی صدارت میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں مبارک قاضی مرحوم کی شاعری اور قومی درد کے بارے میں نوشکی کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا جن میں پروفیسر محمد سعید بھی شامل تھے۔ ہمارے کراچی کے ساتھیوں عیسیٰ بلوچ اور اصغر لعل نے بھی خطاب کیا

اور کچھ ہم بھی بولے۔ اس طرح یہ اچھی تقریب صدرِمجلس یارجان بادینی کے مقررین اور حاضرین کے شکریے کے ساتھ اختتام کو پہنچی۔ اتفاقاً بلوچی زبان کے مشہور سنگر استاد نورمحمد نورل (پیدائش نوشکی) بھی اسی شہر میں اس وقت آئے ہوئے تھے۔ شام کو وہ ہمارے “ٹھکانے” (بی اینڈ آر ریسٹ ہاؤس) پہنچے۔ ان سے بھی خوب گپ شپ ہوئی۔ اور پھر ان کو اور مہر و محبت کے شہر نوشکی کے دوستوں کو الوداع کہہ کر ہم یار جان بادینی کی گاڑی میں بیٹھ کر کوئٹہ میں اپنے “گھر” کو روانہ ہوئے۔(جاری ہے)