|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2024

ملک بدترین مالی کا شکار ہو یا نہ ہو عوام کے ٹیکسز پر اداروں اورحکومتی سربراہوں کاپروٹوکول جائز نہیں ہوسکتا۔ دنیا کے جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں قومی خزانے سے پیٹرول، ڈیزل، بجلی، گیس، لگژری گاڑیاں، مفت سفر سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں نہ دوران سروس اور نہ ہی ریٹائرمنٹ کے بعد بلکہ ایک تنخواہ مقرر ہوتی ہے اسی پر وہ اپنے اخراجات چلاتے ہیں اسی لئے آج ترقی کے لحاظ سے وہ بہت آگے نکل چکے ہیں جبکہ ہم بدترین مالی بحران سے دوچار ہیں اور دیگر بحرانات پہاڑ بن کر ہمارے سامنے کھڑے ہیں ۔ملک کو چلانے کیلئے قرض لینا پڑتا ہے یہ سب شاہی اخراجات، بدعنوانی، اقرباء پروری، کرپشن سمیت غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔

ملک کو بہتر سمت دینے کیلئے بیس سالہ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کا تعلق معیشت اور سیاسی استحکام سے جڑی رہے تب جاکر ملک بحرانوں سے نکل سکے گا۔ بہرحال وفاقی حکومت نے وزراء اور سرکاری افسران کے بیرون ملک سفر سے متعلق نئی سفری پالیسی جاری کردی جس کے مطابق سرکاری افسران کے بیرون ملک دوروں کے دوران فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پر پابندی عائد کردی گئی ہے جب کہ معاون اسٹاف کے بیرون ملک سفر کرنے پر بھی پابندی ہوگی۔

نئی پالیسی میں ناگزیر صورتحال نہ ہونے پربیرون ملک سفر کی اجازت کفایت شعاری کمیٹی سے لینا لازمی قرار دیا گیا ہے،اس کے علاوہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری کے ایک ہی وقت بیرون ملک دوروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے، پابندی سے استثنیٰ کے لیے متعلقہ وزیر یا ڈویژن کو وزیراعظم سے اجازت لینا ہوگی۔

دستاویزات کے مطابق وفاقی وزیر، وزیر مملکت، مشیر اور معاونین سال میں بیرون ممالک کے 3 دورے کرنے کے مجاز ہوں گے لیکن وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو اس پابندی سے استثنیٰ ہوگا۔

دستاویزات کے مطابق صدر، چیف جسٹس، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی اور سروسز چیفس فرسٹ کلاس سفری سہولیات کے مجاز ہوں گے جب کہ وزیر اعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، وزیر خارجہ، وفاقی وزراء اور وزیر مملکت بزنس کلاس سفر کے مجاز ہوں گے۔پالیسی میں بیرون ملک دوروں کے لیے پی آئی اے کو پہلی ترجیح قراردیا گیا ہے جب کہ بھارت کے دورے کے لیے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

بہرحال اس سے آگے بڑھ کر مزید سخت فیصلے کرنا ہونگے، پروٹوکول اور فضول اخراجات کے خاتمے سمیت ان شخصیات کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے نظام کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں ،بڑے بڑے صنعتکار ٹیکس نیٹ کے اندر موجود نہیں ملک سے پیسہ کماکر باہر جائیدادیں خریدتے ہیں اپنا مستقبل باہر ہی دیکھتے ہیں ان پر ہاتھ ڈالنا چاہئے جن کا تعلق سیاست یا دیگر اداروں سے ہی کیوں نہ ہو۔ بیرونی قرضوں کے ذریعے عوام پر مزید بوجھ ڈالنا سراسر زیادتی ہے جو اب دو وقت کی روٹی سے بھی رہ گئے ہیں۔ اگر حقیقی جمہوری ماڈل کو اپنایا جائے تو مالی بحران سے چھٹکارا مل جائے گا اور دیگر مسائل بھی حل ہونگے۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت وہ اقدامات اٹھائے گی جو ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں ہوں۔