بلوچستان اور سندھ میں زرداری کی حکومت قائم ہونے کے باوجود بھی بلوچستان کے شہری سندھ میں کراچی پولیس کی بدمعاشی کا شکار ہیں۔ دونوں صوبوں میں “سکہ زرداری رائج الوقت” ہونے کے باوجود بھی بلوچستان سے کراچی آنے والے لوگوں کے ساتھ پولیس گردی عروج پر ہے۔ چیکنگ کے بہانے لوگوں کی عزت نفس کو مجروح کرنا معمول بن گیاہے۔ لوگوں سے لوٹ مار کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ انہیں مختلف الزامات کے مقدمات میں پھنسا کرحوالات میں بند کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
Posts By: عزیز سنگھور
بلوچستان میں پراکسی وار؟
بلوچستان کی پاکستان میں جبری الحاق سے لیکر آج تک بلوچ قوم کے کسی بھی زخم پر مرہم نہیں رکھا گیابلکہ زخموں پر نمک چھڑکایا جارہا ہے۔
عید کی خوشیاں پھیکی
بلوچستان کی عوام کے سال کے تین سو پینسٹھ دن احتجاجوں میں گزرتے ہیں۔ عید کی خوشیاں آئیں یا ماہ رمضان کے عبادت کے دن ، وہ اپنے گھروں میں چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ پورا سال جبری گمشدگی کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور لواحقین سڑکوں پر افطاری کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ان کی عید کی روایات اور خوشیاں پھیکی پڑنے لگتی ہیں جبکہ پاکستان کے دیگر صوبوں میں عید کی تیاریاں جاری رہتی ہیں۔ مارکیٹوں میں شاپنگ کے لئے رش لگا رہتا ہے۔
“گوات اور دَر” کی کہانی
گوادر بلوچی زبان کے دو الفاظ “گوات اور دَر” سے بنا ہے، جس کے معنی ’’ہوا کا دروازہ” ہے۔ تاہم آج نہ “در” رہ گیا ہے اور نہ ہی وہ “گوات” رہ گئی ہے۔ سارے دروازے بند کردیئے گئے ہیں۔
احمقوں کی جنت
ایرانی زیرتسلط “مغربی بلوچستان” میں سیاسی، معاشی اور سماجی حقوق کی پامالی روز اول سے جاری ہے۔ ایران میں بلوچوں کو مکمل طور پر ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں سے خارج کردیا گیا ہے۔بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان کی تشہیر ملک کے خلاف غداری تصور کی جاتی ہے اور ایسے عمل سے سفاکانہ طریقے سے نمٹا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ علاقوں میں مستقل طور پر بہت سی فوجی چھاؤنیاں تعمیر کی گئی ہیں۔
بھاڑ میں جاؤ!
بلوچستان برسوں سے ملکی اور عالمی کارستانی کا شکار چلا آرہا ہے۔ بلوچ سرزمین پر کبھی انسانی حقوق کی پامالی کی جاتی ہے تو کبھی “گلوبل وارمنگ” سے پیدا ہونے والی “کلاؤڈ برسٹ” (بادل کا پھٹنا) کی زد میں آجاتی ہے۔ حال ہی میں بلوچستان کے 22 سے زائد اضلاع میں بادل پھٹ گئے جس کی وجہ سے سینکڑوں دیہات و قصبے ڈوب گئے۔
“بلوچی گوازی
“گوازی” بلوچی لفظ ہے جس کا مطلب “کھیل” ہے۔ حالیہ انتخابات میں ملک میں خصوصاً بلوچستان میں جو “گوازی” کھیلا گیا وہ ایک منفرد اور دلچسپ “گوازی” تھا۔ یہ “گوازی” دیدہ دلیری کے ساتھ کھیلا گیا۔ یہ “گوازی” ریاستی اشرافیہ نے بڑی چالاکی کے ساتھ سرانجام دیا۔
نئی حکومت پرانے وینٹی لیٹر پر۔۔۔۔۔!
حکومت سازی کے نام پر سیاسی بندر بانٹ شروع ہوگئی ہے۔ اقتدار کے لنگر میں کسی کے ہاتھ مرغی کی ٹانگ لگ گئی تو کسی کے ہاتھ سینہ لگ گیا۔
بلاول بھٹو کے نام کھلا خط
بلوچ گلزمین کے بعد سندھ دھرتی پر بھی مڈل کلاس عورتوں پرمشتمل ایک خاموش تحریک پنپ رہی ہے۔ یہ تحریک سندھ میں سیاسی خلاء پرنہ ہونے کی وجہ سے جنم لے رہی ہے کیونکہ بلوچستان کی طرح سندھ میں بھی ایک افراتفری اور سیاسی بے چینی کا ماحول ہے جس کی ذمہ دار سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو اور صاحبزادی آصفہ بھٹو آہستہ آہستہ اپنی عوامی مقبولیت کھو ر ہے ہیں۔ دونوں کا پولیٹیکل اسٹینڈ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ وہ سیاست میں مصلحت پرستی کررہے ہیں۔
خیراتی مینڈیٹ
عوام کی طاقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔ عوامی طاقت کے سامنے طاقتورآمر ہو، ریاست ہو یا کٹھ پتلی حکومتیں سب ڈھیر ہوجاتی ہیں۔ جس کی واضح مثال ہمارے سامنے پاکستان میں حالیہ ہونے والے عام انتخابات کے نتائج تھے