
بلوچستان میں پانی اور بجلی بحران کے باعث زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے ، بلوچستان میں زراعت ایک واحد ذریعہ ہے جس سے بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
بلوچستان میں پانی اور بجلی بحران کے باعث زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے ، بلوچستان میں زراعت ایک واحد ذریعہ ہے جس سے بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔
سی پیک خطے کے لیے ایک گیم چینجر ہے اور اس کا مرکز بلوچستان گوادر ہے اب تک سی پیک سے جڑے جتنے بھی بڑے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہوئی ہے وہ سب بلوچستان کے باہر ہی ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان میں کوئی ایک بڑا منصوبہ اب تک نہیں بنایا گیا ،ٹرانسپورٹ سے لیکر بجلی گھر تک بلوچستان میں نہیں بنائے گئے جس سے عوام کو اور صنعتکاروں کو فائدہ پہنچتا کیونکہ ٹرانسپورٹ نظام سے عوام کو سستی سفری سہولیات میسر آتیں جبکہ بجلی گھر لگنے سے صنعتوں سے تجارت کے ساتھ بڑے پیمانے پر عوام کو روزگار ملتا ۔
حکومت نے پیٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں 30 روپے فی لیٹر اضافہ کردیا۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے، حکومت نے پیٹرول، ڈیزل اور کیروسین آئل کی فی لیٹر قیمت میں 30 روپے اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈیرہ بگٹی سونا اگلنے والی سرزمین ہے گزشتہ کئی دہائیوں سے ملک بھر میں گیس اسی خطے سے جارہی ہے جس سے ملک کی صنعت کا پہیہ اور چھوٹے بڑے دیہات تک کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں جبکہ یہی گیس بلوچستان کے اسی علاقے میں دستیاب نہیں جہاں سے یہ نکلتی ہے۔ لوگ لکڑی سے اپنے گھر کا چولہا جلاتے ہیں کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ اسی گیس فیلڈ سے اربوں روپے وفاقی حکومت کماتی ہے اور کمپنیاں کام کررہی ہیں ،بڑے پیمانے پر منافع لے رہی ہیں مگر افسوس کہ اس بدقسمت علاقے کی تقدیر نہیں بدلی۔ ڈیرہ بگٹی کے علاقے پیرکوہ میں ہیضے کی وباء پھوٹ پڑی ہے جس سے قیمتی جانیں ضایع ہوگئی ہیں۔
موجودہ حکومت کو اس وقت دو اہم اور بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ایک سیاسی استحکام اور دوسرا معیشت، جن سے کم وقت میں نمٹ کر نکلنا ہے جو کہ آسان نہیں مگر ناممکن بھی نہیں ہے ۔بروقت اقدامات وسیع تناظر میں کرنے ہونگے سیاسی اتحاد سے بالاتر ہوکر ماہرین سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے کہ معاشی بحران پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے، بجلی لوڈشیڈنگ سے صنعتیں متاثر ہورہی ہیں کاروبار سمیت عام لوگ متاثر ہیں اس سے کیسے نکلا جائے تاکہ صنعتی پہیہ چلتا رہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کو جب فارغ کیا گیا تو اول روز سے قارئین کے سامنے یہ نکتہ رکھتے آئے ہیں کہ مبینہ خط کے اندر کچھ نہیں ہے اور کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کے اندر مداخلت سازش یا دھمکی باقاعدہ تحریری طور پر لکھ کر نہیں بجھواتا جس کی ایک طویل تاریخ اورفہرست ہے، جہاں بھی رجیم چینج ہوا اور براہ راست امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طاقت کا استعمال کیا وہ ہمارے سامنے ہیں جن میں بیشتر مسلم ممالک ہیں، البتہ جواز ضرور پیش کیا گیا اور خوفناک انداز میں ان پر حملہ آور ہوئے اور وہاں اندرون خانہ جنگی پیدا کی گئی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد اپوزیشن اتحاد پر مشتمل نئی حکومت بنی جس میں تمام جماعتوں کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا ہے سوائے پی ٹی آئی کے۔ کابینہ میںملک کی بڑی اور چھوٹی جماعتیں شامل ہیں جن کی قومی اسمبلی میں اپنی نشستیں ہیں جبکہ کچھ وزراء ممبر اسمبلی نہ ہونے کے باوجود بھی کابینہ کا حصہ ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کوجب سے عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایاگیا ہے وہ اداروں پر شدید تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور مسلسل یہ الزامات لگارہے ہیں کہ انہیں ہٹانے کا بڑا منصوبہ بیرون ملک یعنی امریکہ نے تیار کیا تھا جس نے براہ راست مداخلت کرکے اپوزیشن جماعتوں پر مبینہ سرمایہ کاری کرکے مجھے ہٹایااور اس الزام کو مبینہ خط کے ذریعے انہوں نے لگایا ہے
بلوچستان کا ساحل تجارتی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، مغرب سے سینٹرل ایشیائی ممالک کو گوادر کے ذریعے تجارت کے حوالے سے استعمال میں لایا جائے تو پورے ملک کی معیشت کا پہیہ تیز رفتاری سے چلے گا، عرصہ دراز سے اس جانب توجہ مبذول کرائی جارہی ہے کہ بلوچستان کے خشک اور سمندری راستوں کو دیگر ممالک کے ساتھ ریلوے ٹریک، شاہراہوں کے ذریعے ملایا جائے تو یہ ایک بہت بڑا معاشی اور خوشحالی کا اقدام ہوگا لیکن بدقسمتی سے اس جانب خاص توجہ نہیں دی گئی۔
نئی حکومت بننے کے بعد ملکی مسائل حل ہونے کے حوالے سے بہت سی امیدیں عوام نے وابستہ کررکھی ہیں خاص کر مہنگائی کا جو بوجھ عوام پر گزشتہ ساڑھے تین سال کے دوران لادھ دیا گیا ہے، اس کے ساتھ بیروزگاری نوجوانوں کے لیے چیلنجز کے طور پر سامنے آیا ہے اس کے ساتھ ہی دیگر مسائل جو درپیش ہیں اس صورتحال میں اگر ایسی خبر آجائے کہ آئندہ چند روز میں مہنگائی میں دوبارہ اضافہ ہوگا اور عوام پر ٹیکسز کا نیا بوجھ لادھ دیا جائے گا تو یقینا عوامی حلقوں میں شدید مایوسی پھیل جائے گی۔