کورونا وائرس کا خطرہ پھر منڈلانے لگا ہے نئی قسم اومی کرون کے زیادہ کیسز سامنے آنے لگے ہیں ملک کے بیشتر شہروں میں اس کی شرح بہت زیادہ ریکارڈ کی جارہی ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ویکسی نیشن نہ کرنے والے علاقوںسے اومی کرون کے زیادہ کیسز رپورٹ ہورہے ہیں حالانکہ شہریوں کی سہولت کیلئے ویکسی نیشن سینٹر ہر جگہ قائم کیے گئے ہیں۔
مہذب معاشرے اور ممالک کی ترقی کا کلیدی کردار قانون سازی اور نصاب پر ہی منحصر ہے اگران دواہم جز پر توجہ نہیں دی جاتی تو معاشرے میں زوال کا عنصر حاوی ہوجاتا ہے۔
افغانستان میں استحکام کا مسئلہ ابھی تک برقرار ہے کہ دنیا مستقبل کے افغانستان کو کس طرح دیکھنا چاہتی ہے یہ بہت بڑا سوال ہے جو حل طلب ہے کیونکہ اب تک امریکہ سمیت عالمی طاقتوں نے افغانستان کے حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی ہے سیاسی ومعاشی مسئلے پر مکمل طور پر افغانستان کو سائیڈ لائن کردیا گیا ہے
نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی مہنگائی کا تحفہ عوام کوپیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں دیا گیا ۔ اس کا خدشہ پہلے سے موجود تھا پیشگی تجزیے میں ہی اس کا ذکر کیا گیا تھا کہ ہماری معاشی پالیسی کی سمت درست بالکل ہی نہیں ہے۔
2021ء بہت سی یادیں ،لمحات،واقعات، سانحات لے کر رخصت ہوگیا۔ بلوچستان کی بات کی جائے تو یقینا صوبے کے مرکزی سیاستدانوں سے لیکر دیگر اہم شخصیات چلی گئیں جو کہ بڑے صدمے سے کم نہیں جن کا کردار بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے باب میں لکھا جائے گا۔ سردار عطاء اللہ خان مینگل، میرحاصل خان بزنجو، لالاعثمان کاکڑجیسے زیرک سیاستدانوں نے ایک طویل جدوجہد بلوچستان کے حقوق کیلئے کی ۔بہرحال کسی کے نظریہ سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر اپنے بساط کے مطابق جدوجہد میں سبھی نے حصہ ڈالا۔
نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت 2008ء سے 2013 میں مائننگ کا لائسنس نہ ملنے پر ٹی سی سی نے ثالثی کے دو بین الاقوامی فورمز سے رجوع کیا تھا جن میں سے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انسویٹمنٹ ڈسپیوٹس (ایکسڈ) نے کمپنی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے پاکستان کو مجموعی طور چھ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومت پاکستان چھ ارب ڈالر کے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ٹھیتیان کاپر کمپنی کے دو شراکت داروں میں سے ایک شراکت دار سے دوبارہ معاہدہ کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اراکین کو اسی مجوزہ معاہدے کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔
حکومت نے منی بجٹ لانے کی تیاری کرلی ہے اب اس میں یہ دعوے سامنے آرہے ہیں کہ عوام پر کوئی بوجھ نہیں ڈالاجائے گا اور نئے ٹیکسز اس میںنہیںہونگے ۔گوکہ ریلیف دینے کا جو مسئلہ ہے وہ ابھی بھی دعوؤں کے طورپر سامنے آرہاہے کیونکہ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران ملک میں مہنگائی نے تاریخی ریکارڈ توڑے ہیں جس میں اہم عنصر ناقص معاشی پالیسی ہے اور متعدد بار وزیر خزانہ کی تبدیلی اس کا ثبوت ہے کسی ایک فرد کو منصب پر رہ کر مکمل ذمہ داری سے کام نہیں لیا گیا یا پھر وہ اس کے اہل کے نہیں تھے۔
عوام کے مسائل کا حل کو نکالے گا؟ کون ان کی داد رسی کرے گا؟ کس کے پاس اپنی فریاد لے کر جائیں؟احتجاج کریں؟شاہراہیں بلاک کریں؟ انتشاری کیفیت پیدا ہوجائے؟ نہ جانے ملک کے اہم محکموں کے اندر بڑے ذمہ داران وآفیسران عوام کو اپنا غلام کیوں سمجھتے ہیں اورعوامی نوعیت کے مسائل کو حل کرنے میں انتہائی غیر سنجیدگی کامظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔ عوام کے ٹیکسز سے بھاری تنخواہ وصول کرنے والے آفیسران کو عوامی معاملات سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے اگر محکموں کے اندر آفیسران ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دیتے تو شاید بعض حد تک ملک کے اندر موجود بحرانات اور مسائل حل ہوتے اور عوام ہر معاملے پر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے پر مجبور نہ ہوتے مگر انہیں اس قدر ذہنی اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ تنگ آمد بہ جنگ آمد کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ عوام کو اشتعال میں لانے کے ذمہ داران محکموں کے اندر بیٹھے آفیسران ہی ہیں
وفاقی وزارت قومی صحت نے اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران تسلسل کے ساتھ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔یہ اعتراف وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کیا گیا ہے۔وفاقی وزارت قومی صحت کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ 2018 میں ادویات کی قیمتوں میں 2.7 سے 3.9 فیصد اضافہ ہوا۔
دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں انتہاء پسندی کی قسم کی گنجائش نہیں ہوتی بلکہ برابری کی بنیاد پر بھائی چارگی کے ساتھ سب زندگی گزارتے ہیں۔ تمام اقوام، مذاہب، فرقوں کو سیاسی، معاشی اور عبادات کے حوالے سے آزادی حاصل ہے انسان برابرہیں کوئی کسی سے بالاتر نہیں ہے مگر بدقسمتی سے بعض ممالک میں انتہا پسندی کے رجحان میںاضافہ دیکھنے کوملا ہے تیسری دنیا کے ممالک سمیت مغرب میں بھی انتہاء پسندانہ واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔