ضلع ڈیرہ غازی خان اور ضلع راجن پور کے تقریباً اسی فیصد مواضعات سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر ڈوب چکے ہیں۔لوگوں کا کچھ بھی باقی نہیں بچا سب کچھ پانی اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔گورنمنٹ سمیت سماجی تنظیموں اور پاکستان کے مخیر حضرات نے گزشتہ کئی دنوں سے ان اضلاع کے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کی ہوئی ہیں۔جس سے وہ متاثرہ لوگوں کی ہر ممکن مدد کر رہے ہیں خشک راشن ،ٹینٹ، کپڑے جوتے،بسترے،آٹا،ادویات سمیت ضرورت زندگی کی اشیاء سیلاب زدگان تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ابتدائی دنوں میں تو سب کچھ ٹھیک چلتا رہا لیکن اب پچھلے کئی دونوں سے دیکھنے اور سننے میں آ رہا ہے کہ غیر متاثرہ،پیشہ ور بھکاریوں اور جرائم پیشہ لوگوں نے لوٹ مار کرنے کیلئے مختلف گروہ بنا لیے ہیں جو امدادی سامان والی گاڑیوں پر یا جہاں امدادی سامان تقسیم کیا جا رہا ہو تا ہے وہاں دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے قدرتی آفات کے بعد متاثرہ علاقوں میں امدادی کاروائیاں شروع ہوتے ہی وہاں بڑے پیمانے پر لوٹ مار بھی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے حقیقی متاثرین تک امداد نہیں پہنچ پاتی۔یہ حالات میں اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ چکا ہوں۔گزشتہ رات بھی گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج تونسہ شریف کے کمروں میں رکھے ہوئے امدادی سامان پر ایسے ہی گروہ کے شرپسندوں نے دیواریں پھلانگتے ہوئے دھاوا بول کر سب کچھ لوٹ لیا۔پچھلے کئی روز سے ایسے واقعات معمول کے مطابق ہو رہے ہیں۔
Posts By: شجاعت خان احمدانی
میرا وسیب ڈوب گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔!!
قارئین! ہولناک “ویرانے” اور اذیت ناک “سناٹے” صرف جنگلوں قبرستانوں یا بیابانوں میں نہیں بلکہ “ریاست” کے اندر بھی ہوتے ہیں۔آج سرائیکی وسیب کے علاقے بالکل اسی طرح ویران اور ہولناک سناٹوں کا دکھ بھرا منظر پیش کر رہے ہیں جسے ہر جیتا جاگتا انسان دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔کوہ سلیمان کے دامن سے نکلنے والی رود کوہی کے سیلابی ریلوں نے روجھان سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک تباہی مچا دی۔ہزاروں بستیاں زیرآب آ گئیں،کئی گھر زمین دوز ہو گئے، لاکھوں ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں۔لوگوں کی اشیاء خوردونوش،سال بھر کی جمع پونجی ،اوڑھنا بچھونا، جمع شدہ اجناس ،مال و متاع سب سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے۔
سانحہ مری۔۔۔۔۔!!
اس حکومت کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات ،ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس نے جہاں مہنگائی، کرپشن اور بے روزگاری کے باعث عام آدمی کا جینا دو بھر کیا ہوا ہے ،وہیں آئے روز اس حکومت کی ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے مختلف قسم کے سانحات کارونما ہونا اس حکومت کی نا اہلی کو مزید ثابت کر رہے ہیں۔
کے پی کے میں بڑے برج الٹ گئے۔
جھوٹِفریب اور دھوکے سے اقتدار حاصل تو کیا جا سکتا ہے لیکن اسے زیادہ دیر تک اپنے پاس نہیں رکھا جا سکتا۔آج کل ملکی حالات کے پیش نظر عوام کو جھوٹے لولی پاپ دے کر اقتدار تک پہنچنے والی تحریک انصاف کے ساتھ وہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔جس صوبے سے تحریک انصاف کی ڈولی بڑی ٹھاٹھ باٹھ سے اٹھی تھی۔ اب اسی خیبر پختونخوا سے اس جماعت کا جنازہ اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔اگر مزید اس حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی اور دوسری طرف حکومتی وزراء نے بیانات داغنے کی بجائے عملی طور پر آن دی گراؤنڈ اپنی کارکردگی کو اچھا ثابت نہ کیا تو دوسرے صوبوں میں اس جماعت کی تدفین ہو جائے گی۔خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت نے تحریک انصاف کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا۔کئی حکومتی برج الٹ گئے اور اہم وزرا آبائی علاقوں میں اپنے مضبوط کھلاڑیوں کو حکومتی مشینری کے ہوتے ہوئے بھی نہ جتوا سکے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور صوبائی وزیر شہرام ترکئی کے ضلع صوابی کی تین تحصیلوں ٹوپی، چھوٹا لاہور اور رزڑمیں پی ٹی آئی کے امیدوار ہار گئے جبکہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کے آبائی ضلع کوہاٹ میں تحریک انصاف میئر شپ کے انتخاب میں شکست سے دوچار ہوئی۔کوہاٹ میں وزیر مملکت شہریار آفریدی اپنی یونین کونسل سے بھی اپنے امیدوار کو جیت نہ دلوا سکے،گورنر شاہ فرمان کے آبائی علاقے بڈھ بیر سے ان کا امیدوار تحصیل چیئرمین نہ بن سکا، وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور کے حلقے پہاڑ پور میں تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وزیر مملکت علی محمد خان کے شہر مردان میں بھی پی ٹی آئی امیدوار میئر کی سیٹ پر ناکام رہا۔وزیر دفاع پرویز خٹک کے قومی اسمبلی کے حلقے میں شامل تحصیل پبی سے تحریک انصاف کو شکست کا سامنا کرنا پڑا،وفاقی وزیر عمر ایوب کے آبائی علاقے ہری پور کے تین تحصیل چیئرمینوں کی نشستیں نواز لیگ اور آزاد ارکان لے اڑے جبکہ ڈپٹی سپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی محمود جان کے بھائی احتشام خان متھرا سے ہار گئے،صوبائی وزیر جنگلات اشتیاق ارمڑ تحصیل چمکنی میں اپنے امیدوار کو کامیاب نہ کرا سکے۔
موسمیاتی تبدیلیاں،درخت اور ہماری ذمہ داری۔۔۔۔۔!!
پچھلے چند روز سے مختلف اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر “پارہ پچاس ڈگری پر پہنچ گیا،گرمی سے بچے سکولوں میں بے ہوش ہو گئے” اور پچھلے کئی دنوں سے پڑنے والی شدید گرمی کو خود محسوس کر کے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔بنی نوع انسان کی پیدائش کیلیے جن اجزاء کا ذکر اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ان میں سے ایک مٹی Soil بھی ہے۔کرہ ارض کی بالائی تہہ مٹی کہلاتی ہے۔
!اسرائیل،فلسطین اور امت مسلمہ۔۔۔۔
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 27 رمضان المبارک کو عید سے چند روز قبل نماز تراویح کے دوران اسرائیلی فوج نے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر دھاوا بول دیا۔مسجد کی بے حرمتی کی،نمازیوں پر وحشیانہ تشدد کیا،فلسطینی بچوں،عورتوں اور نوجوانوں پر ربڑ کی گولیوں سے فائرنگ کی۔اس دوران متعدد فلسطینی زخمی اور درجنوں گرفتار ہوئے۔اس بربریت کے پیچھے محرکات یہ ہیں کہ اسرائیلی حکومت نے پچھلے دس روز سے کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کر رکھا تھاجس کا مقصد شیخ جراح کے محلے میں فلسطینیوں کے گھروں،دکانوں اور کاروباری مراکز پر قبضہ کرنا ہے۔دس دن قبل اسرائیلی سپریم کورٹ اور یہودی آباد کار ایسوسی ایشن کے درمیان ایک معاہدے کی سماعت کے بعد فلسطینیوں سے اس جگہ کو خالی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔یہ مقدمہ فلسطینی خاندانوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل کرنے ہے۔آج اکیسویں صدی میں اس علاقے کے مجبور لوگ یہودیوں کے مظالم تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تھانہ کلچر میں اصلاحات وقت کی اہم ضرورت
جس معاشرہ میں امن کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اس معاشرے میں انسانیت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔وہاں ظلم و بربریت اور لاقانونیت کا بول بالا ہوتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر انسانی جانوں کو چھلنی کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا ہے وہاں نہ معصوم بچوں پر ترس کھایا جاتا ہے ،نہ ہی عورت کی حرمت کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بہن کے جوان بھائی پر رحم کیا جاتا ہے کیونکہ ان ظالم درندوں کو پتا ہوتا ہے کہ پولیس انہیں ہر صورت میں تحفظ فراہم کرے گی اور جتنا ہو سکا انہیں پولیس مدد فراہم کرے گی۔
بے محنت پہیم کوئی جوہر نہیں کھلتا
آج کل کا زمانہ ترقی یافتہ کہلاتا ہے۔ہر گوشئہ زندگی میں نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں ان جدید اکتشافات کے سامنے عقل و خرد محو حیرت ہو جاتی ہے۔انسان ترقی کے نام پر ایسی جگہ پہنچ چکا ہے جس کا اس نے کبھی وہم و گمان بھی نہیں کیا تھا۔خدا باری تعالیٰ سے اشرف المخلوقات کا درجہ پانے والا انسان اپنی جوانمردی،مستقل مزاجی، محنت سے،تجرباتی،تجزیاتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر فلک کے ستاروں پر قدم رکھ چکا ہے۔جہاں ہم اور آپ رہتے ہیں،طرح طرح کی نت نئی جدید ترین ایجادات کو دیکھتے ہوئے ہمیں وسوسے پیدا ہونے لگتے ہیں۔
13دسمبر لاہور جلسہ،آر یا پار
حکومت مخالف اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا ملتان میں ہونے والا جلسہ حکومت کی مرہون منت یا اتفاقاً حکومتی غلط پالیسیوں کی وجہ سے یادگار اور دلچسپ بن گیا تھا۔اگر حکومت آرام سے یہ جلسہ کرنے دیتی تو شاید یہ جلسہ گوجرنوالہ،کراچی،کوئٹہ اور پشاور میں ہونے والے جلسوں کی طرح ہو جاتا اور اتنی پذیرائی نہ ملتی۔اس جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،ایک ہزار پولیس افراد کو تعینات کر کے اسٹیڈیم اور گھنٹہ گھر چوک کو سیل کر دیا گیا تھا،قاسم باغ کو تالے لگا کر بند کر دیا گیا تھا،موبائل انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی تھی۔
غریب عوام،مہنگائی اور اپوزیشن۔۔۔!!
سیاست کی گرما گرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے پورے پاکستان میں ایک تحریک شروع کر دی ہے۔یہ تحریک ووٹ کی عزت،ووٹ کی حرمت، ووٹ کے دفاع،مہنگائی اور اپوزیشن کی گرفتاریوں کے خلاف کی آواز بلند کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا،عدلیہ، اداروں پر دباؤ کا مقدمہ پی ڈی ایم لڑے گی۔پی ڈی ایم تحریک میں بھی اتحادی جماعتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیش آئے لیکن انہیں حل کر لیا گیا۔اب روٹیشن کی بنیاد پر پی ڈی ایم کی سربراہی کی باری تمام اتحادی پارٹیوں کو دیے جانے کی قرارداد منظور کی گئی۔