آرمی چیف کی تعیناتی پر سیاست

| وقتِ اشاعت :  


ملک میں اس وقت سیاسی اور عوامی ہیجان کا مرکز فوجی تعیناتی نظر آرہی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ فوجی سربراہ کا اپنا کردار ہوتا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی جھکائو اکثر انہیں تعینات کرنے والی سیاسی حکومت کے تابع نہیں ہوتا لیکن اس وقت کا سب سے بڑا موضوع نئی آرمی چیف کی تعیناتی ہے ،جسے بحث بنا کر سیاسی تنازعات ابھارے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی جانب سے نواز شریف کا یہ موقف سامنے آرہا ہے بھیجی گئی سمری میں میرٹ میں جو سب سے سینئر جنرل ہو ،اسے فوج کا سربراہ بنا دیا جائے لیکن تاحال نواز شریف کے اس خیال کوتقویت ملتی نظر نہیںآرہی جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ حکمران جماعت باالخصوص مسلم لیگ (ن)میں شاید اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک بیانیہ یہ بھی بنایا جارہا ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سمری میں تاخیر بھی اسی لیے کی جارہی ہے کہ حکمران جماعت نے ابھی تک اپنا واضح ذہن نہیں بنایا۔ اندرون خانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سینئر جنرل کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جارہا ہے، جس کے بعد نئی سینارٹی کے مطابق سمری حکومت کو ارسال کی جائے گی۔



ملکی میڈیا پر بلوچستان کا بلیک آئوٹ!

| وقتِ اشاعت :  


لسبیلہ یونیورسٹی انتظامیہ طلبا کے خلاف من گھڑت ایف آئی آردرج کراکے اپنی آمرانہ رویوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ طلبا گزشتہ تین روز سے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہوئے ہیں تاحال یونیورسٹی سمیت لسبیلہ انتظامیہ کی طرف سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ خبر نہ تو کسی میڈیا پر آئی ہے اور نہ ہی کسی معروف صحافی نے اسے رپورٹ کرنے کی زحمت کی ہے۔ اگر یوں ہی مسائل کو دباتے رہیں تو انکے نتائج بھیانک شکل میں نکل سکتے ہیں۔ لسبیلہ انتظامیہ اس مسئلے پر بات تک کرنے کو تیار نہیں جیسے ان کے نظر میں یہ ایک معمولی مسئلہ ہے۔ طلبا کی زندگیاں دائو پر لگا کر یونیورسٹی انتظامیہ جس بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے اس پر حکومت وقت کو نوٹس لینا چاہئے لیکن ابھی تک حکومت کو شایداس کا علم ہی نہیں۔ آخر کب تک بلوچ طلبا کے ساتھ ایسا ہوتا رہے گا۔



لیون ٹراٹسکی ، موت جسے مٹا نہ سکی!

| وقتِ اشاعت :  


ولادیمیر لینن کے ہمراہ اکتوبر 1917ء کے بالشویک انقلاب کی قیادت کرنے والے لیون ٹراٹسکی کو آج سے 73 سال قبل، 21 اگست 1940ء کو میکسکو میں جلاوطنی کے دوران قتل کر دیا گیا۔بعد میں منظر عام پر آنے والی دستاویزات سے ثابت ہوا کہ سوویت انٹیلی جنس کے لئے کام کرنے والے کرائے کے قاتل رامن مرکاڈر نے اسٹالن کے حکم پر ٹراٹسکی کوقتل کیا تھا۔ تاریخ کا ستم دیکھیں کہ بالشویک انقلاب کے قائد کے قاتل کو اس کی خدمات کے اعتراف میں سٹالن نے سوویت یونین کے سب سے بڑے انعام’ آرڈر آف لینن‘ سے نوازا۔



خان محراب خان شہید اور بلوچ مزاحمت کی روایت

| وقتِ اشاعت :  


خان محمود خان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے محراب خان جانشین کے طور پر مسندِ اقتدار پر براجمان ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر میں انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے بہت سی اقوام کی خود مختاری چھین کر ان کی آزادی ، غلامی میں بدل دی تھی۔ بہت سے علاقوں پر قبضہ کرنے کے بعد 1838ء کو جب انگریز افغانستان پر حملہ کرنا چاہتے تھے تو وہاں پہنچنے کے لیے انھیں بلوچستان کے علاقوں سے گزرنا تھا اور اس سلسلے میں وہ درّہ بولان کے راستے کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ تاہم انہیں درّہ بولان سے گزرنا اس لیے مشکل پڑ رہا تھا کیوں کہ حاکمِ قلات خان محراب خان افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین کی سرحدوں کو استعمال کرنے کے لیے کسی طرح بھی راضی نہیں تھا۔



مڈل سکول، دو جے وی ٹی استاد اور دو کمرے، بچے کھلے آسمان تلے پڑھنے پر مجبور

| وقتِ اشاعت :  


اورماڑہ شہر سے نکل کر جب ہم اورماڑہ کے دیہی علاقوں میں جارہے تھے تو میرے ذہن میں بار بار یہ سوال آرہا تھا کہ شہر میں تعلیم کا کوئی پرسان حال نہیں تو دیہی علاقوں میں کیا ہوگا؟ مکران کوسٹل ہائی وے سے جب ہم نے تاک لنک روڑ پر سفر شروع کیا تو لنک روڑ کی حالت بہتر دیکھ کر کچھ سکون ملی مگر ہمارا اگلا منزل اورماڑہ کے سکولز تھے جہاں تعلیمی صورتحال کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا تھا، کیونکہ ہم نے ماضی قریب میں یہ سنا تھا کہ بلوچستان میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کئی گئی تھی۔



انجینئر عائشہ زہری کی علم دوستی

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ملک کا پسماندہ صوبہ ہونے کے ساتھ ساتھ علمی میدان میں بھی پستی پر ہے تاہم یہاں اب نوجوانوں میں علمی ماحول کو پروان چڑھانے اور مقابلے کے امتحانات میں شامل ہونے کیلئے کتب بینی کو اولیت دیکر ایک بہترین ماحول کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے نصیرآباد میں چند سال قبل سابق وزیر اعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری کے ترقیاتی منصوبوں میں سے دیگر منصوبوں کے علاوہ خصوصی طور پر ایک لائبریری قائم کی گئی جس کی دیکھ بھال وقتی طور پر سوشل ویلفیئر کے ذمہ لگایا گیا محدود فنڈز کے باوجود لائبریری کو فعال کیا گیا۔



انتخابات یا مارشل لا۔۔؟

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کا موجودہ سیاسی بحران جس نے ملک میں ایک بے یقینی کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے جوایک جانب جہاں عام آدمی کے ذہن کو متاثر کررہا ہے، وہیں اس نے ملک کے عام آدمی کے مسائل کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے۔ وطن عزیز کے لوگ موجودہ سوشل میڈیا کے دورمیں سیاسی شعور کے بجائے سیاسی عقیدت کاشکار ہوچکے ہیں۔یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو بری لگے لیکن یہ حقیقت ہے کہ سیاسی عقیدت سیاسی شعور کی موت ہے۔ بیانیے کی جنگ نے دلیل اور مثبت بحث کو ختم کردیا ہے۔ سیاسی بیانیہ بنانے میں گوبلز کی تھیوری کا کامیاب استعمال ہورہا ہے،یعنی جھوٹ اتنا بولو کہ سچ کا گماں ہونے لگے۔اس کا کامیابی سے استعمال ہورہاہے ،کسی بھی چیز کو بغیر سوچے سمجھے کٹ پیسٹ کرکے اسے سچ ثابت کرنا اور اس پر ڈٹ جانا ہماری فطرت کا جزو بن چکا ہے، ہم اب بحث قائل کرنے کے لیے نہیں بلکہ مخالف پر فتح کی نیت سے کرتے ہیں۔



فیک نیوز کا شاہکار ، “عمران خان پر سیلاب فنڈ کے پیسے لانگ مارچ پر استعمال ہونے کا اصل حقیقت”

| وقتِ اشاعت :  


چند روز سے مختلف سوشل میڈیا ویبسائٹس پر ایک تصویر گردش کر رہی ہے، جس میں بتایا جا رہا ہے کہ دنیا نیوز کے مطابق عمران خان نے جو فنڈ سیلاب زدگان کے نام پر جمع کیا تھا وہ پیسہ لانگ مارچ پر استعمال ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ دنیا نیوز کے آفیشل اکاونٹ… Read more »