ملک میں تقسیم اور انتشار کی سیاست زور پکڑ رہی ہے، سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں شروع ہوئیں اس روز یہ بیانیہ لایا گیا کہ بیرونی سازش سے پیسے لیکر ہماری حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ اسلام آباد کے جلسے میں خط باربار لہرا کر یہ بات کہی گئی اور اس کا بھی زوروں سے تذکرہ کیا گیا کہ عسکری قیادت کے سامنے بھی خط کو رکھا گیا تمام ذمہ داران شریک تھے مگر بعدازاں آئی ایس پی آر کی جانب سے اس کی ایک بار نہیں متعدد بار تردید سامنے آئی، لیکن پی ٹی آئی بضد رہی کہ نہیں امریکہ نے سازش کرکے ہمیں نکالا،سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے تمام تروسائل سازشی بیانیہ کو فروغ دینے کے لیے صرف کیے گئے ،سیاستدانوں کی کھلے عام تذلیل کا ٹرینڈ بھی شروع کیا گیا۔
پاکستان میں معاشی صورتحال بہتر ی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے کاروباری طبقہ کا اعتماد بحال ہوتا جارہا ہے اور اس وقت روپے اور ڈالر کے درمیان فرق واضح طور پر سامنے آرہاہے، روپیہ تگڑاہوتا جارہا ہے جبکہ ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہوتی جارہی ہے جوکہ معیشت کے حوالے سے انتہائی مثبت بات ہے۔ پاکستان کو اب اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اپنے وسائل اور پیداوارکے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا جب ملک میں کارخانے اور صنعتیں لگ جائینگی تو مصنوعات کی طلب میں اضافہ ہوگا جسے برآمد کرکے عالمی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرکے سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور ملک میں ترقی کے نئے راستے کھل جائینگے مگر اس کے لیے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر انداز میں آگے بڑھانا ضروری ہے اور سب کے ساتھ تجارتی اور سفارتی حوالے سے مضبوط رشتے قائم کرنے ہونگے ۔
پی ٹی آئی کے رہنماءسابق وزیراعظم اورچیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی شہباز گل کو گزشتہ روز اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا ، شہباز گل کے خلاف ریاستی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور سازش کا الزام ہے ،پولیس کا کہنا ہے کہ شہبازگل کے خلاف مقدمے میں اداروں اور ان کے سربراہوں کے خلاف اکسانے سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ عمران خان کا شہباز گل کی گرفتاری پر ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ شہباز گل کو گرفتار نہیں بلکہ اغواءکیا گیا ،عمران خان نے کہا کہ کیا ایسی شرمناک حرکتیں کسی جمہوریت میں ہو سکتی ہیں؟ سیاسی کارکنوں کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کیا گیایہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہم اس حکومت کو قبول کر لیں۔بہرحال پی ٹی آئی دور حکومت میں سیاستدانوں، صحافیوں کے ساتھ کیا ہوا وہ اپنی جگہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ کس طرح سے انہیں اغواءکرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان میں سیلاب کے حوالے سے اب تک صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے جانی ومالی نقصانات بہت زیادہ ہوئے ہیں اور اس وقت مکمل تفصیلات بھی سامنے نہیں آئے ہیں کہ کتنے اضلاع میں اموات سمیت مالی نقصانات ہوئے ہیں اس حوالے سے سب سے پہلے جامع رپورٹ مرتب کی جائے تاکہ مکمل تفصیلات صوبائی اوروفاقی حکومت کے پاس دستاویزات کے طور پر موجود ہوں اور اس کے بعد بحالی کے حوالے سے اقدامات کا سلسلہ شروع کیاجاسکے مگر اب بھی بلوچستان میں بارش کی صورتحال ہے لوگ بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں قیامت صغری ان پر برپا ہے یہاں تک کے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں رہ گیا ہے متاثرین انتہائی بدحالی کی کیفیت میں ہیں یہی مطالبہ متاثرین کررہے ہیں کہ انہیں کی امداد بروقت کی جائے جبکہ بارش کی وجہ سے آلودہ پانی نے وبائی امراض کا مسئلہ بھی پیدا کردیا ہے اس لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ انسانی بحران مزید جنم نہ لے سکے۔سیلاب ریلیف کمیٹی کے سربراہ اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے قومی لائحہ عمل کے تحت صوبائی حکومتوں کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے خط لکھ دیا۔وزیراعظم کی ہدایت پر ریلیف کمیٹی کے سربراہ احسن اقبال نے خطوط لکھے جو چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھجوائے جا چکے ہیں۔
بلوچستان میں بارش اور سیلاب کی تباہ کاری نے پوری نظام زندگی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔صوبے کے شاید کم ہی اضلاع ایسے ہوں جو اس تباہ کاری سے محفوظ رہے ہوں ہر قصبہ ایک درد ناک داستان بیان کررہا ہے بے یارومددگار بے سروسامانی میں بیٹھے متاثرین امداد کے منتظر ہیں کہ انہیں کب اس بڑی آفت اور مصیبت سے نکالاجائے گا روز رپورٹس سامنے آرہی ہیں کہ مزید لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں بزرگ، بچے خواتین سمیت ہر کوئی متاثر ہورہا ہے ایک طرف تو ان کا سب کچھ اس آفت نے چھین لیا ہے انتہائی کرب میں زندگی گزارہے ہیں کوئی پرسان حال تک نہیں ہے گوکہ حکومت اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے کام کررہی ہے مگر جن ہنگامی اقدامات اور مالی ریلیف کی ضرورت ہے اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کے بس میں نہیں کیونکہ بہت بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں نصف حصہ ملک کا ہے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ کس طرح سے داد رسی ہوسکتی ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ رسائی میں بھی دشواریاں ہیں اس لیے باربار اس بات پر زور دیاجارہا ہے کہ عالمی ڈونرکانفرنس بلائی جائے تاکہ بڑے پیمانے پر مالی امداد جمع کی جاسکے اور بلوچستان میں ہونے والی تباہ کاریوں پر بحالی کا کام شروع کیاجاسکے۔
ملک میں معاشی صورتحال بہتر ہونے لگی ہے کاروباری طبقہ بھی اس حوالے سے بہت زیادہ مطمئن دکھائی دے رہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے بھی یہ دعویٰ کیاجارہا ہے کہ آئندہ چند ماہ کے دوران معیشت بہتر ہوجائے گی اس کی ایک بڑی وجہ دو دوست ممالک کارقم فراہم کرنا بھی ہے جبکہ آئی ایم ایف کے ساتھ بھی معاملات کافی حد تک طے ہوچکے ہیں۔ ان رقوم کے آنے سے معاشی نقشہ مکمل طور پر بدل جائے گا اور اس کی جھلک گزشتہ دو روز کے دوران ڈالر کی قدر میں کمی سے دیکھنے میں ملا ہے کہ روپے مکو استحکام آیا ہے
بلوچستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی اور اس قدرتی آفت میں 163 لوگوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں جن میں زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اس کے علاوہ مکانات، فصلوں اور سڑکوں اور پلوں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے صوبے کی رابطہ سڑکیں منقطع ہوگئیں تھیں ان میں سے اکثرکو بحال کردیا گیا ہے ۔نیزحکومت نے دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیلاب زدگان کو متاثرہ علاقوں سے ریسکیو کراکے محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا اور سیلاب زدگان کیلئے قائم ریلیف کیمپ میں امدادی اشیاء اور تیار کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
پاکستان کے آئین آرٹیکل 17A میں واضح ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں پابند ہیں کہ وہ اپنے مالیاتی اخراجات اور آمدن کی معلومات ہر سال فراہم کرینگی اوراس کے ساتھ ہی آئین یہ بھی کہتا ہے کہ غیرملکی فنڈنگ پر پابندی ہے ۔ ان دو نکات سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنایا ہے اور واضح طور پر یہ بتایا ہے کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی ہے جسے چھپایاگیا ۔ بیان حلفیہ میں غلط بیانی سے کام لیا گیامتعدد ایسے اکاؤنٹس ہیں جو پارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ناموںپر تھے جن کے ذریعے دیگرممالک سے فنڈز آتے رہے اور ان کی ٹرانزیکشن بھی ہوئی ،رقم نکالی گئی اسے استعمال کیا گیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کافیصلہ بلآخر آگیا ، پی ٹی آئی اب ایک بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے سیاسی حوالے سے اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گئی ہے مستقبل میں پی ٹی آئی پر اس کے انتہائی منفی اثرات پڑینگے۔ الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف کی ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔