کوئٹہ: صوبائی وزیر خزانہ سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ میں پچھلے سال کی نسبت 15 فیصد کم خسارہ ہے، ہما را کل بجٹ 366.72 ارب روپے ہے جسکا 13 فیصد بجٹ امن و امان پر دے رہے ہیں،پولیس 29 ارب لیویز 13 ارب جیل خانہ جات کو 1.2 ارب روپے دے رہے ہیں،بلوچستان کو وار زون بنایا گیا ہے فغانستان کے حالات کا 80 فیصد اثر ہم پر رہا ہے،وفاق سے گزارش ہے۔
ستر سال سے زائد عرصے کے دوران کچھ بھی نہیں بدلا ،حکمرانوں کی پالیسیاں عوام کے لیے اسی طرح ہی برقرار ہیں۔ ملک گزشتہ کئی دہائیوں سے مشکل وقت سے گزر رہا ہے اور ان تمام تربدترین حالات میں عوام نے ہی قربانی دی ہے صنعت کار سے لیکر سیاستدانوں کے مقابلے میں عوام سب سے زیادہ ٹیکس دے ر ہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی عوام سے مزید ٹیکسوں کے ذریعے ان کاخون چوسنے کامعاملہ تھم ہی نہیں رہا ۔ سپرٹیکس جو لگائے گئے ہیں۔
ملک کو اس وقت سب سے زیادہ استحکام کی ضرورت ہے اور یہ استحکام امن سے مشروط ہے کوئی بھی ملک بغیر امن کے ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں بدامنی کی وجہ سے سرمایہ کاری پر بہت زیادہ فرق پڑا ہے جس کی وجہ سے متعدد ممالک نے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا رسک نہیں لیا۔ اندرون خانہ حالات بہتر ہوجائیں تو سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑے گا اس کے لیے امن پر زور دینا انتہائی ضروری ہے .یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے بات چیت کے متعلق مشاورت حکومت کی جانب سے کی جارہی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے متعلق حتمی فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری اور اتفاق رائے سے کیا جائے گا۔اعلامیے کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی وعسکری قیادت نے شرکت کی۔
ملک میں مقامی اخباری صنعت کو شدید خطرات لاحق ہیں جس کی بڑی وجہ اس صنعت پر خاص توجہ نہ دینا ہے۔ مقامی اخبارات سے بڑی تعداد میں غریب صحافیوں کا روزگار جڑا ہوا ہے ۔ پرنٹ میڈیا کا کردار اگر دیکھاجائے تو انتہائی اہم ہے جس میں عام لوگوں سے لے کر سیاسی جماعتوں تک سب کو بہت زیادہ جگہ دی جاتی ہے، علاقائی مسائل کی نشاندہی ان کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں ۔سب سے زیادہ اس وقت بلوچستان میں اخباری صنعت متاثر ہے جسے اشتہارات کی مدمیں اس طرح اہمیت نہیں دی جاتی جس طرح وفاق دیگر صوبوں کو دیتا ہے جبکہ بلوچستان حکومت اپنے بجٹ کے لحاظ سے اشتہارات دیتی ہے۔
وزیراعظم اور وزیرخزانہ نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے مکمل طور پر زبان بندی رکھی ہے بحرانات کے اسباب بتانے سے گریزاں ہیں ماسوائے پچھلی حکومت کو کوستے ہوئے ان پر ملبہ ڈال رہے ہیں مگر اب تک کی چیلنجز پر کوئی بات نہیں کی جارہی کہ اس وقت دوست ممالک چین سمیت دیگر قرضے کیوں نہیں دے رہے ہیں ؟آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت آگے کیوں نہیں بڑھ رہی ہے؟ وہ کون سے شرائط ہیں جو آئی ایم ایف رکھنے جارہی ہے اور حکمران خاموش بیٹھے ہوئے عوام کے سامنے اصل حقائق لانے سے کترا رہے ہیں۔ اگر حکومتی نمائندگان کے بیانات کاجائزہ لیاجائے تو اپنے نجی تنقید کے حوالے سے فوری ردعمل دیتے ہیں اور اس حوالے سے متحرک بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ملک میں اس وقت بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے ,شدید گرمی کے دوران غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کمرشل اور گھریلو صارفین شدید ذہنی کوفت میں مبتلا ہوکر رہ گئے ہیں۔ ملک کا شاید ہی کوئی ایسا قصبہ ہو جہاں لوڈشیڈنگ نہ کی جارہی ہو جب پچھلی حکومت کے دورمیں طویل اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہوتی تھی تو موجودہ حکومت میںشامل جماعتیں سراپااحتجاج ہوتی تھیں اور پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس کوئی پالیسی نہیں اور نہ ہی کوئی بہترین ٹیم موجود ہے جو ملک کو توانائی سمیت دیگر بحرانات سے نکال سکے جبکہ سابقہ اپوزیشن اور موجودہ حکومت کے ذمہ داران ہر جگہ یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر وہ حکومت کی بھاگ ڈور سنبھال لینگے تو ملک کو مسائل سے نکال کر عوام کو بہت حد تک ریلیف فراہم کرینگے۔
سندھ حکومت نے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کاروباری اوقات محدود کرنے کیلئے ایک مہینے کے حوالے سے پلان مرتب کرلیا ہے جس کے مطابق صوبہ بھر میں کاروباری سرگرمیاں رات 9 بجے کے بعد جاری رکھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے جس کے تحت رات 9 بجے تمام بازار، دکانیں اور شاپنگ مالز بند کردیے جائیں گے۔نوٹیفکیشن کے مطابق تمام شادی ہالز رات ساڑھے دس بجے بند کردیے جائیں گے جبکہ شادی بیاہ کے پروگرامز بھی رات ساڑھے دس بجے ختم کرنا ہوں گے۔
پاکستان کی کوششیں رنگ لے آئیں، فیٹف کے دیئے گئے اہداف مکمل ہو گئے اور اس طرح پاکستان نے ایک ذمہ دارریاست کا ثبوت دیا۔پاکستان نے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی روایت برقرار رکھی، افواج پاکستان نے حکومت اور اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا۔
حکومت بڑی مشکل میں پھنس گئی ہے۔ وفاقی وزراء کی جانب سے جس طرح کے بیانات معاشی صورتحال پر دیئے جارہے ہیں بالکل پی ٹی آئی کے ٹریک اور طرز کی ہیں، عوام سے اخراجات کم کرنے کی اپیلیں کی جارہی ہیں ۔یہی باتیں پی ٹی آئی کے وزراء کرتے رہتے تھے کہ آدھی روٹی کھائیں، دودھ کا استعمال کم کریں وغیرہ وغیرہ اب احسن اقبال جیسے ذمہ دار اور سنجیدہ سیاستدان بھی عوام کوچائے کم پینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
بلوچستان میں پانی اور بجلی بحران کے باعث زراعت بری طرح متاثر ہورہی ہے ، بلوچستان میں زراعت ایک واحد ذریعہ ہے جس سے بلوچستان کے بیشتر لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔