عمران خان نے یوٹرن ایک اور بڑی تاریخ رقم کردی ویسے تو عمران خان اول روز سے ہی اپنے ہی بہت سارے دیئے گئے بیانات دعوؤں، الزامات پر یوٹرن لے چکے ہیں۔ 2014ء سے ملک میں انقلاب لانے کی باتیں کرتے کرتے 2022ء کو ان کا انقلاب راولپنڈی جلسے میں ایک خطاب کے بعد ختم ہوگیا عمران خان اسلام آباد کی طرف مارچ کرکے حکومت سے استعفیٰ لینے کے لیے آرہے تھے مگر خود اپنی صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرنے کااعلان کرکے واپس چلے گئے۔
پاکستان کوہمیشہ سے چیلنجز کا سامنا رہا ہے اوریہ کبھی معاشی تو کبھی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے رہا ہے۔ انہی حالات کی وجہ سے پاکستان ترقی کی رفتار میں پیچھے رہا ،معاشی صورتحال انتہائی ابتر رہی ،دوسری جانب دہشتگردی کا سامنا کرناپڑا، ملک کے اندر موجود سیاسی مسائل بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہیں کہ انہیں وفاقی حکومتوں کو حل کرنا چاہئے تھا ۔
بلوچستان کی ترقی اورخوشحالی کے حوالے سے حکومت اوراپوزیشن سب ہی متفق ہیں مگر بدقسمتی سے مستقل بنیادوں پر معاشی پالیسی پر کام نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ہمارے میگامنصوبوں کے متعلق معلومات زیادہ رکھی جاتی ہیںکہ وہ اس وقت منصوبوں سے کتنا منافع کمارہے ہیں کتنا حصہ وفاق لے جاتا ہے ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منصوبے کے معاہدوں کے حوالوں سے بھی بہت ساری معلومات فراہم ہی نہیں کی جاتیں مگر یہ ذمہ داری بلوچستان کی سیاسی جماعتوں ،حکومت اوراپوزیشن سب کی ہے کہ وہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے متعلق تمام تر معلومات سے آگاہ ہوںتاکہ بلوچستان میں چلنے والے منصوبوں کے محاصل کا جو حصہ ہے وہ حاصل کرنے ،اس کا مقدمہ لڑنے کے لیے تمام تر دستاویزات ان کے پاس ہوں۔
بلوچستان میں مسائل کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کے حوالے سے ہر حکومت اعلانات اور دعوے کرتی ہے مگر عملاََ بلوچستان میں کوئی کام نہیںہوتا ۔سال ہاسال کے منصوبے تکمیل تک نہیں پہنچتے ۔بنیادی سہولیات تک بلوچستان کے عوام کو میسر نہیں، حکومتی اوراپوزیشن کے حلقے سب ہی پسماندگی کا شکار ہیں۔ فنڈز کی فراہمی کے باوجود مبینہ طور پر ٹھیکیداروں کی جانب سے کرپشن کے الزامات سامنے آتے ہیں ۔یہ شکوے مقامی افراد وقتاََ فوقتاََ احتجاج کے طور پر کرتے نظر آتے ہیں کہ سڑکوں پر ٹھیکیدار ہاتھ صاف کرجاتے ہیں، تعلیمی ادارے، صحت کے مراکزسے لیکر ہر منصوبے میں خرد برد کی باتیں سامنے آتی ہیں اور زمینی حقائق واضح طور پر یہ دکھاتے ہیںکہ کتنا کام ہورہا ہے۔
بلوچستان میں سب سے بڑا مسئلہ انفراسٹرکچر،ترقیاتی منصوبے، روزگار، سرحد پر کاروباری مسائل سمیت ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے ہے۔ان مسائل پر اہل بلوچستان ہر وقت سراپااحتجاج دکھائی دیتے ہیں اور مطالبہ بھی یہی کرتے ہیں کہ بنیادی مسائل کو حل کیاجائے تاکہ درپیش مشکلات کم ہوسکیں۔ موجودہ حکومت کی جانب سے حال ہی میں کچھ اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں یقینا وہ قابل تعریف ہیں اور اس وقت حکومت بھرپور کوشش کررہی ہے کہ دستیاب وسائل میں عام لوگوں کے مسائل کو حل کیاجائے تاکہ بلوچستان میں خوشحالی آسکے۔ جس کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان میرعبدالقدوس بزنجو وقتاََفوقتاََ کرتے رہتے ہیں اس سے قبل بھی انہوں نے بہت سارے مسائل کو حل کیا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ہمیں ورثے میں احتجاج اور دھرنے ملے جن کا ہم نے بات چیت کے ذریعے مؤثر خاتمہ کیا ،ہماری حکومت میں ایک سال میں جو کام ہوئے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، حکومت کی اولین ترجیح عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی سمیت روزگار مہیا کرنا ہے جس کا صوبائی حکومت کو ادراک ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے محکمہ مواصلات و تعمیرات کے 361ملازمین کو بحالی کے تقرر نامے تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔
وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرہ اضلاع میں زراعت کی بحالی اولین ترجیح ہے کاشکاروں کو 2.2ارب روپے کی لاگت سے بلامعاوضہ گندم کے معیاری رجسٹرڈ بیج فراہم کئے جا رہے ہیں۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور متاثرہ بنیادی ڈھانچہ کی بحالی یقینی بنائیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعلیٰ بلوچستان نے کیمپ آفس ہنہ میں علاقے کے معتبرین سے ہونے والی ملاقات کے دوران کیا۔ قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان ایڈووکیٹ، صوبائی وزراء اور اراکین اسمبلی بھی اس موقع پر موجود تھے۔
سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ان کی ذاتی رائے ہے کہ معاملہ واپس پارلیمنٹ کو جائے گا، نیب قانون پرحکم امتناع جاری نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کر کے سوال کیا کہ نیب قانون سازی کے وقت آپ کیوں موجود نہیں تھے؟ ہمارے سوالات میں ایک تجویز چھپی ہوئی ہے، اس پر عوام کی خاطر غورکریں، تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، پارلیمان کا کوئی متبادل فورم نہیں،پارلیمنٹ کام کرے گی تو ملک چلے گا۔سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصورعلی شاہ خصوصی بینچ کا حصہ ہیں۔