بلوچستان جوکہ سات دہائیوں سے جبر و استحصال اور سامراجی تسلط کے زیر اثر ہے۔ بالخصوص دو دہائیوں سے تو یہ دھرتی جنگی اکاڑہ بنا دی گئی ہے جس سے مکمل آبادی متاثر ہے۔ ماس کلنگ، ماس مائیگریشن، اجتماعی قبریں و اجتماعی سزائیں، جبری گمشدگیاں، وسائل کی بے دریغ لوٹ مار، سیاست و صحافت و ادب پر پابندی، ذریعہ معاش پر بندشیں۔۔۔ الغرض ہر طرح سے زمین زادوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ جمہوری سیاست کے داعی قوم پرست جماعتوں کو یا تو پیچھے دھکیل کر ختم کر دیا گیا یا پھر ان کے اندر سے ساری مزاحمت کی گرمائش نکال کر انہیں مصلحت پسندی و تابعداری پر لگا دیا گیا۔ ایسے میں عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کا خلا پیدا ہوگیا اور عوام نے قوم پرست لیڈرشپ اور انکی جماعتوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
عالمی سطح پر نظام کے بحران اور زوال کے نتیجے میں ہر طرف سیاسی عدم استحکام پیدا ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر معاشروں کے بیلنس بگڑ چکے ہیں۔ افراتفری اور بیگانگی کی کیفیت پروان چڑھ چکی ہے۔ سماجی قدریں گِر چکی ہیں۔ عمومی سوچیں تنزلی کی شکار ہیں۔ تمام تر دانش اور تجزیے سطحی نوعیت پر چلی گئی ہیں۔ سائنس و نظریات کی جگہ نعرہ بازی اور لفاظی نے لے لی ہے۔
اس وقت دنیا کی آبادی تقریباً 7 ارب ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ جن میں ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دنیا میں کچھ لوگوں کو کسی خاص مقصد کے لیے بھیجا ہے جو صرف انسانیت کی خدمت کے لیے بھیجے گئے ہیں جن میں میڈم ڈاکٹر روتھ فاؤ، تھامس گرین مورٹن، بل گیٹس، ڈاکٹر ادیب رضوی، محمد رمضان چھیپا، جیسے کئی نام شامل ہیں۔ انصار برنی، اور مولانا عبدالستار ایدھی شامل ہیں اور فہرست بہت طویل ہے۔
دنیا میں بک انڈسٹری کی گراؤنڈ بریکنگ آئیڈیاز پر مبنی بکس اور ان سے بننے والی فلمیں اور ڈاکومنٹریز معاشرتی تعلیم اور شعوری بلندی کر کے قومی ترقی اور خوشحالی میں اتنا بڑا کردار ادا کرتی ہیں جتنا کوئی بھی بڑا تعلیمی ادارہ اور ان اداروں کے ماہرین اور اساتذہ اپنی تعلیمی اور تدریسی اعلیٰ کارکردگی کے باوجود بھی نہیں کر سکتے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 26 جون کو منشیات کے استعمال اور اس کی اسمگلنگ کی روک تھام کا عالمی دن منایا جاتاہے۔ منشیات سے پاک بین الاقوامی معاشرے کے مقصد کے حصول کے لئے کاروائی اور تعاون کومضبوط کرنے کے عزم کے اظہار کے طور پر 7 دسمبر 1987 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قرارداد کے زریعے اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد منشیات جیسی ناسور کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات و جرائم (UNODC) کی ورلڈ ڈرگ رپورٹ 2021 کے مطابق دنیا بھر میں منشیات استعمال کرنے والے افراد کی تعداد تقریباً 27 کروڑ 50 لاکھ ہے جب کہ 3 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد منشیات کے استعمال کے عوارض کا شکار ہوئے ہیں۔
سلطان کے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ اتنا بڑا ماہر فلکیات، ریاضی دان اور ستارہ شناس ہے تو کیوں نہ اس کا امتحان لیا جائے۔ اس نے اس ستارہ شناس کو بلایا اور اسے مخاطب کرکے کہا “میں محل کے ان چار دروازوں میں سے کس دروازے سے باہر نکل جاؤں گا” تم علم نجوم اور علم ریاضی کے اصولوں کی مدد سے حساب لگا کر کاغذ پر لکھ دو۔
کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار اس کی لیڈر شپ پر ہوتا ہے جس کے بغیر ترقی کی اْمید ایک خواب ہی ہو سکتی ہے۔ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص خصوصیات اور صلاحیتیں رکھی ہیں۔کسی میں سائنسدان بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے ،کوئی فصیح و بلیغ خطیب بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔کوئی اچھا طبیب بننے کی استعداد رکھتا ہے تو کسی میں لیڈر بننے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ہر انسان کسی ایک جیسی خوبی کا مالک نہیں ہوتاہر ایک کی اپنی انفرادی خصوصیات اور صلاحیتیں ہوتی ہیں۔یہ طے شدہ حقیقت ہے کہ کسی بھی میدان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر موجود خصوصیات یا صلاحیتوں سے آگاہ ہو۔انسان اپنی صلاحیتوں سے آگاہی حاصل کر کے کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔آج ہمارے معاشرے کے لوگوں کی ناکامی کا نصف سبب اپنی صلاحیتوں کی پہچان کے بغیر ہی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں وقت ضائع کرنا ہے۔ہمارے ملک کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والوں پر ذرا غور کیا جائے تو حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی استعداد کے مخالف شعبے میں محنت کر رہے ہیں
اس موضوع پر عزیز سنگھور کے کالموں کا مجموعہ ایک کتاب کی شکل میں شائع ہوچکا ہے۔ “روزنامہ آزادی کوئٹہ” میں شائع شدہ عزیز سنگھور کے کالم بلوچستان میں ہونے والی ظلم و زیادتی کی تصویر کشی کرتے ہیں جن میں آئے روز بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت ایک سیاسی ہلچل ہے۔ مولانا ہدایت الرحمٰن پر سے لوگوں کا اعتماد ٹوٹ رہا ہے۔ مولانا جو بطور حق دو تحریک کے سربراہ چند ہی دنوں میں ایک بڑا لیڈر بن کر سامنے آئے۔
جلتے سلگتے بلوچستان میں 29 مئی کے بلدیاتی انتخابات کو اسی بلاگ میں امید کی ایک کرن قرار دیتے ہوئے انتہائی محتاط الفاظ میں کوئٹہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے گوش گزار کیا تھا کہ کسی خوش فہمی میں نہ رہا جائے کہ سخت سیکیورٹی کے حصار میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ سب اچھا ہے عموماً بلوچستان کے بارے میں لکھتے ہوئے معتبر بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے مکالمہ ضرور کرتا ہوں کہ کتنا ہی باخبر کیوں نہ ہوں۔
پانی ایک بڑی نعمت ہے مگر آج کل بلوچستان میں صاف پانی انتہائی نایاب ہوتا جارہا ہے۔ لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں آج بھی بلوچستان کے لوگ جوہڑ اور تالابوں کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پورے بلوچستان میں صرف سات اضلاع کے لوگ نہری پانی پینے پر مجبور ہیں جن میں پٹ فیڈر کینال اور کیرتھر کینال شامل ہیں۔ اس وقت بلوچستان کے حصے کا پانی صرف 10300 (دس ہزار تین سو) کیوسک ہے جو سندھ اور پنچاب کی ایک بڑی نہر سے بھی بہت کم ہے جو بلاشبہ ایک شرم ناک بات ہے۔