|

وقتِ اشاعت :   October 5 – 2020

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا۔امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ افغان امن کے لیے دو سال سے جاری ہماری کوششوں میں پاکستان مدد گارثابت ہوا۔ پاکستان نے طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات اور تشدد میں کمی کی ترغیب دی۔زلمے خلیل زاد نے کہا کہ پاکستان افغان رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے سلسلے میں بھی مددگارثابت ہوا کیونکہ پاکستان افغانستان میں امن کو ملکی امن کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔

تمام افغان 42 سال میں پہلی بار ایک میز پر بیٹھے ہیں، یہ امید اور موقع کا لمحہ ہے مگر اس لمحے کے اپنے چیلنجزبھی ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغان رہنماء اور طالبان غلطیاں دہرانے کی بجائے پُرامن حل پر رضامند ہو جائیں۔امریکی نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان افغانستان کو دہشتگرد اور انتہاپسند گروپوں کے لیے اپنی زمین استعمال نہ کرنے دینے کا معاہدہ کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور امید ہے کہ اس کے حوصلہ افزا نتائج برآمدہونگے۔زلمے خلیل زاد نے خبردار بھی کیا کہ افغان امن مذاکرات ناکام ہوئے تو امریکا اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز افغان مصالحتی کمیشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے بھی افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے طالبان کو تشدد میں کمی پر آمادہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔زلمے خلیل زادکا یہ کہنا کہ امریکہ اپنے قومی سلامتی کے مفادات سے پیچھے نہیں ہٹے گا تو اب تک جو کچھ افغانستان میں ہورہا تھا اس میں براہ راست کس کے مفادات شامل تھے اور اتنی بڑی جنگ کس بنیاد پر وہاں شروع ہوئی تھی،سرد جنگ کے دوران سوویت یونین نے افغانستان کو اپنا بیس بنایا اور اس کی کوشش یہاں کے گرم پانیوں تک رسائی سمیت خطے میں اپنے نظریات کے ذریعے مفادات کو حاصل کرنا تھا۔

جس کے مدِمقابل امریکہ نے اپنا بلاک بنایااور اس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک شامل ہوئے۔ سوویت یونین جس امید اور خواہش کی بنیادپر آیا تھا وہ سب کچھ بکھرکر رہ گیا اور پھر امریکہ کے عین مفادات کے نتیجے میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی گوکہ بعد میں طالبان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوگئے اور بعض معاملات کی وجہ سے دونوں کی رائیں جدا ہوگئیں اس طرح نائن الیون کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے جس کے بعد امریکہ نے ایک بار پھر نئی صف بندی کا آغاز کرتے ہوئے ایک بلاک تشکیل دیا اور امن کے نام پر افغانستان میں جنگ کا آغاز کردیا اور اب کی بار یہ جنگ افغانستان اور اس خطے تک محدود نہیں۔

رہی بلکہ مغرب بھی اس سے شدید متاثر ہوا جہاں پر بڑے واقعات رونما ہوئے اور امریکہ اس جنگ کے اندر بری طرح پھنس گیا یقینا امریکہ محض امن اور سوویت یونین کو روکنے کیلئے نہیں بلکہ اس کے سیاسی ومعاشی مفادات وابستہ تھے اور اس خطے کو کنٹرول کرکے اپنے مقاصد پورے کرنا چاہتا تھا،یہ سب کے سامنے عیاں ہے کہ نائن الیون کے بعد بھارت کا اثر ونفوذ افغانستان میں کس حد تک بڑھ چکا تھا۔بہرحال زلمے خلیل زادکو اس اہم موقع پربجائے امریکی مفادات دہرانے کے، افغانستان اور اس خطے کے متعلق بات کرنا چاہئے۔

اور بارہا یہ کہاجارہا ہے کہ خدارا اب امریکہ اور اس کے اتحادی ماضی کی غلطیوں کو نہ دہراتے ہوئے جنگی ذہنیت کو ترک کرتے ہوئے امن کے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہوئے ماحول کو مزید بہتر بنائیں یقینا اس کے مثبت نتائج برآمد ہونگے اور اسی میں سب کافائدہ ہے۔