|

وقتِ اشاعت :   November 15 – 2020

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بلوچستان کے سیاسی رہنماؤں نے ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور ایسے وزیر اعظم آئے جو بلوچستان کے بجائے لندن زیادہ گئے اور ایسے صدر آئے جو دبئی زیادہ گئے بلوچستان کم آئے۔تربت میں عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ بلوچستان میں ترقی نہ ہونے کی وجہ ماضی کے حکمران ہیں، بدقسمتی سے ملک میں ایسے سیاسی رہنما آئے جنہوں نے وطن سے زیادہ ذاتی مفاد پر توجہ دی۔ان کا کہنا تھا کہ کمزور طبقے کو اوپر نہ لایا جائے تو قوم ترقی نہیں کرتی، کئی لوگ بلوچستان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم سب سے زیادہ زور بلوچستان کو اوپر اٹھانے پر لگائیں گے، سیاسی مفاد سے بالاتر ہوکر بلوچستان پر خصوصی توجہ اس لیے دی جارہی ہے کہ یہ ترقی میں پیچھے ہے، کوئی قوم آگے نہیں جاسکتی اور ترقی نہیں کر سکتی جب تک کوئی چھوٹا سا طبقہ پیچھے رہ جائے۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری ہمارے لیے ترقی کا زینہ بنے گی، ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم چین سے جُڑے ہوئے ہیں، چین دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے، چین نے 30 سال میں کروڑوں افراد کو غربت سے نکالا اور یہ جلد ساری دنیا کو پیچھے چھوڑ جائے گا۔پاکستان میں اب وہی علاقے پیچھے ہیں جہاں تعلیم کم ہے۔

ہم ان علاقوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت، بلوچستان کی ہر طرح مدد کرے گی اور خاص طور پر تعلیم پر توجہ دی جائے گی۔پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کر رہا ہے، اسکالر شپس کو 135 سے بڑھا کر 360 کردیا گیا ہے اور اس پر میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو داد دیتا ہوں۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سب کو احساس ہونا چاہیے کہ بلوچستان ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کرے گا اور پاکستان ترقی کرے گا تو بلوچستان کرے گا، ہم سب اکٹھے ہیں۔بلوچستان کی پسماندگی اورمحرومیوں کی طویل فہرست ہے۔

اس کے اسباب بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی، سینیٹ تک بھی اٹھائے ہیں مگر مسائل کوکبھی سنجیدگی سے نہیں لیاگیا اور نہ ہی سیاسی قائدین کی باتوں پر کوئی خاص توجہ دی گئی حتیٰ کہ بلوچستان کے متعلق اہم فیصلوں سمیت دیگر معاملات پر وفاقی حکومتوں نے اپنے ہی سیاسی جماعتوں کے وزراء سے مشاورت تک کرنا مناسب نہیں سمجھا۔جبکہ دوسرا اہم مسئلہ ذاتی وگروہی مفادات کا بھی رہا ہے جو کہ یہاں کے وزراء نے بلوچستان کے ساتھ اپناتے ہوئے کرپشن کی مگر وفاق کی سب سے زیادہ ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ بلوچستان کو محرومیوں اور پسماندگیوں سے نکالنے کیلئے ایسے فیصلے اور قانون سازی کرتی۔

کہ یہاں کے حالات خود یہاں کے وسائل سے بدل جاتے مگر کبھی بھی کسی بھی حکومت نے اہم پروجیکٹس کا جائز حق بلوچستان کو نہیں دیا۔ اسی طرح سی پیک کے نام سے دیگر صوبوں میں ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچے مگر بلوچستان اس سے محروم رہا۔ یہ بہت ہی آسان اور سمجھنے والی باتیں ہیں اگر انہی پر عمل کیاجائے تو بلوچستان خود اپنے ہی وسائل سے ترقی کرے گا اسے وفاق یا پنجاب کی مددکی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وزیراعظم عمران خان صرف بلوچستان کے وسائل جن کو اب بھی وفاق لوٹ رہا ہے۔

اگر بلوچستان کو انہی پر مکمل اختیار دیا جائے تو چند برسوں کے دوران بلوچستان کا نقشہ ہی بدل جائے گا مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بلوچستان کی محرومیوں اور سابقہ غلط پالیسیوں کی داستانیں بیان تو کی جاتی ہیں مگر پھر بھی اُنہی استحصالی رویوں کوجوں کا توں رکھا جاتا ہے اور جو اصل بنیادی وجوہات ہیں ان پر توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے بلوچستان پسماندہ اور محرومیوں کا شکار ہے۔