|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2021

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں آئین کے آرٹیکل 29تا 40پر فوری عملدآمد، آئندہ مالی سال کے بجٹ اور پی ایس ڈی پی میں تمام اضلاع کو یکساں فنڈز کی فراہمی ،کوئٹہ پشین ، قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے اضلاع میں زرعی اراضیات اور مکانات و دکانات کے مالکان متاثرین کی تشویش کے خاتمے، میروائس خان کے قاتلوںکی گرفتاری سے متعلق علیحدہ علیحدہ قرارداد یں منظور کرلی گئیں۔

اسمبلی نے سرینا ہوٹل میں ہونے والے بم دھماکے سے متعلق تحریک التواء بھی بحث کے لئے منظور کرلی ، جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مورخہ17ستمبر2020ء کے منعقدہ اجلاس میں تحریک التواء پر سیرحاصل بحث کے بعد جناب سپیکر نے رولنگ جاری فرمائی کہ حکومت آئین کے آرٹیکل (3)20کے تحت حکمت عملی کے اصولوں کی بابت رپورٹ پیش کرنے کو یقینی بنائے ۔

چونکہ1973ء سے لے کر اب تک48سالوں کی طویل مدت کے دوران مختلف حکومتیں معرض وجود میں آئیں لیکن آئین کا اب دوم جو حکمت عملی کے اصولوں سے متعلق ہے اور آئین میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں پر عمل پیرا نہ ہوسکے اس لئے معاشرے میں آئین و قانون کی بالادستی قائم نہ ہوسکی اگر مذکورہ عرصہ کے دوران حکمت عملی کے اصولوں پر عملدرآمد کیا ۔

جاتا تو معاشرے سے ظلم و ستم ، عدم برداشت ، قتل و غارت گری ، تعصب فرقہ واریت جیسے ناسور عوامل کا خاتمہ ہوجاتا خواتین اور اقلیتوں کو آئینی حقوق ملتے ، معاشرتی اقدار بلند ہوتے اور معاشرے میں یکساں ترقی و عزت کی فضاء قائم ہوجاتی نیز مسلمانوں کو انفرادی و اجتماعی زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کے مواقع ریاست اور اس کے ادارے آئین کے تحت فراہم کرتے ۔

لہٰذا صوبائی حکومت آئین کے آرٹیکل29تا 40پر فوری عملدرآمد کرنے کے سلسلے میں ایک کمیشن کے قیام کو یقینی بنایا جائے تاکہ وہ حکمت عملی کے اصول مرتب کروا کے ایوان میں پیش کیا جانا ممکن ہوسکے ۔ اپنی قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے ملک سکندرخان ایڈووکیٹ نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد 1949ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد کی روشنی میں ملک کی سمت کا تعین کردیا تھا۔

جس میں یہ بات واضح تھی کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور ملک چلانے کے لئے اقتدار ایک امانت ہوگی اور بطور امانت دار حکمران اپنے فرائض انجام دیں گے 1973ء کے آئین میں بھی آرٹیکل 29سے40تک بنیادی اساس ہیں پرنسپل آف پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ اس اہم مسئلے پر بلوچستان میں کبھی بات نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی قدم اٹھایاگیا انہوںنے زور دیا کہ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ آئین کے مذکورہ آرٹیکلز پر عملدرآمد کیا جائے انہوںنے زور دیا کہ سپیکر کی صدارت میں ایک کمیشن قائم کیا جائے۔

انہوںنے تجویز دی کہ حکومتی و اپوزیشن اراکین سمیت متعلقہ اعلیٰ سرکاری حکام اور جید علمائے کرام مولانا انوار الحق حقانی ، مفتی روزی خان اور مفتی گل حسن کو کمیشن میں شامل کیا جائے جو اس سلسلے میں کام کرکے اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرے ۔ اس موقع پر سپیکر نے کہا کہ مذکورہ قرار داد کے سلسلے میں پہلے بھی صوبائی حکومت کو لکھ چکے ہیں اب بھی لکھیں گے اس سلسلے میں کمیشن کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔

بعدازاں ایوان نے قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثناء بلوچ نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے اور بجٹ 2021-22ء وفاقی و بلوچستان کی سطح پر تشکیل کے آخری مراحل میں ہے ۔ پاکستان میں غیر منصفانہ ترقی او رنابرابری پر اپریل2020ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ڈی پی پاکستان کی رپورٹ میں بلوچستان کی رو بہ زوال سماجی معاشی اور معاشرتی پہلوئوں پر تشویش اور ان کے حل کے لئے سفارشات پیش کی ہیں ۔

لہٰذا بجٹ2021-22ء اور پی ایس ڈی پی کی تشکیل کے وقت وسائل کی سماجی ، معاشی اور معاشرتی ترقی پر خرچ کرنے کے لئے بلوچستان حکومت تمام اضلاع کو تعلیم ، صحت ، ہنر مندی اور روزگار کے مواقع کے لئے یکساں اور منصفانہ فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ثناء بلوچ نے یو این ڈی پی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اس رپورٹ کی روشنی میں آئندہ پی ایس ڈی پی کو ترتیب دے انہوںنے کہا کہ صوبے میں معاشی و معاشرتی مسائل اور عدم مساوات کے باعث مسائل شدید ہورہے ہیں۔

ہوشاب میں معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کا جو واقعہ پیش آیا ہے سیرینا ہوٹل میں ہونے والے دھماکے میں ہم نے شاہ زیب ایمل کاسی سمیت دیگر نوجوانوں کو کھویا ہے ان تمام واقعات کے اسباب عدم مساوات ہیں دوسرحدوں کے درمیان ہزاروں کی تعداد میں لوگ گزشتہ کئی دنوں سے مقید ہیں او رپانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں صوبے کی ترقی کا عمل جمود کا شکار ہے انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت نے گزشتہ تین پی ایس ڈی پیزکے80سے زائدکو سیمنٹ سریا اور ریت بجری پر خرچ کیا ہے۔

جبکہ آنے والی سو ارب روپے کی پی ایس ڈی پی کو صوبے میں تعلیم ، صحت ، ہنر مندی ، امن وامان اور لوگوں کی خوشحالی کے لئے خرچ ہونا چاہئے انہوںنے کہا کہ صوبے میں گڈ گورننس کا دعویٰ کررہی ہے اس وقت بھی چھ ارب روپے کے کیسز نیب میں چل رہے ہیں تو گڈ گورننس کہاں ہے انہوںنے کہا کہ صوبے میں جہاز خریدنے اور ٹنل کھودنے کی بجائے ان بے روزگار نوجوانوں پر توجہ دی جائے۔

جو گزشتہ کئی دنوںسے سرحد پر پھنسے ہوئے ہیں انہوںنے کہا کہ اگر حکومت کو ثناء بلوچ یا اپوزیشن کے کسی رکن سے دشمنی ہے مگر ہمارے حلقے کے لوگوں کی تو ان سے دشمنی نہیں پھر انہیں کیوں ترقیاتی عمل سے محروم رکھا جاتا ہے گزشتہ پی ایس ڈی پی کو ہم نے منصفانہ نہ ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا تھا اگر آئندہ پی ایس ڈی پی میں بھی وہی عمل دہرایاگیا تو ہم عدالت سمیت ہر فورم پر اسے چیلنج کریں گے ۔

جے یوآئی کے عبدالواحد صدیقی نے حکومتی رکن کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی رکن بتائے کہ ضلع پشین جہاں سے جے یوآئی کے تین ارکان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں اس کے لئے کتنے فنڈ رکھے گئے ہیں جبکہ ژوب اور تربت کے لئے کتنی رقم مختص کی گئی ہے انہوںنے کہا کہ تین اراکین اسمبلی کے حلقوں پر مشتمل پشین کے لئے ایک ارب روپے جبکہ تربت کے لئے نو ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ حکومتی ارکان کو حقائق پر بات کرنی چاہئے ۔ جے یوآئی کے رکن مکھی شام لعل نے کہا کہ میری تجویز پر پی ایس ڈی پی میں شامل منصوبوں کو نکالا گیا ہے حکومتی اراکین کی تجاویز کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے اور ہم جو منصوبے تجویز کرتے ہیں انہیں نکال دیا جاتا ہے ۔انہوںنے کہا کہ سندھ میں اقلیتی خواتین کو اغواء کرکے جبراً ان کا مذہب تبدیل کیا جارہا ہے۔

کوئی ایسا دن نہیں جب اس طرح کا واقعہ رونما نہ ہوتا ہو اس جانب توجہ دی جائے ۔ پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں کمیشن کے لئے سڑکوں کے منصوبے شامل کئے گئے ہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی منصوبہ نہیں لایاگیا میرے حلقے پی بی اکتیس میں گزشتہ دور حکومت میں جو منصوبے شروع کئے گئے تھے اس کی نسبت موجودہ دور حکومت میں کوئی ترقی نہیں ہوئی گزشتہ دور حکومت میں بلوچستان میڈیکل یونیورسٹیز بنائی گئیں۔

جبکہ موجودہ حکومت نے میڈیکل یونیورسٹی کو کالج میں تبدیل کیا حکومت نے کرپشن ، لوٹ مار اور پرسنٹیج کے حصول کے علاوہ کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا بلوچستان کے تما م حلقوں کو برابری کی بنیاد پر پی ایس ڈی پی میں ترجیح دی جائے انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت نے جس طرح صوبے کے عوام کو بے یارومددگار چھوڑا ہے اسی طرح اپوزیشن کے حلقوں کو ترقی سے محروم رکھا ہے ہم اسمبلی فلور پر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے حلقوں کو حکومت نے ترقی سے محروم رکھا ہے۔

حکومتی رکن مبین خان خلجی نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ باہر سے کوئی کنسلٹنٹ فرم بلا کر جائزہ لیا جائے کہ صوبے میں کتنا کام ہورہا ہے اس وقت کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں کام ہورہے ہیں حکومتی اراکین کی نسبت اپوزیشن کے حلقوں میں زیادہ کام ہورہے ہیں سریاب میں سڑکیں ، سپورٹس کمپلیکس بن رہے ہیں جبکہ گزشتہ حکومت میں کوئٹہ کے اپنے چار ایم پی ایز کے باوجود یہاں سے چھ ارب روپے کوئٹہ سے چمن شفٹ کئے گئے۔

اس دوران کوئٹہ شہر میں کوئی کام نہیں ہوا ۔جے یوآئی کے رکن عزیز اللہ آغا نے کہا کہ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر سردار یار محمد رند نے فلور پر جو باتیں کہیں وہ حکومتی اراکین کے منہ پر طمانچہ ہے سردار یار محمد رند نے جن حقائق کو بیان کیا وہ حکومت ، تحریک انصاف اور عمران خان پر عدم اعتماد ہے انہوں نے پی ڈی ایم کے موقف کو درست ثابت کیا حکومتی اراکین حقائق پر بات کریں۔

آنے والی پی ایس ڈی پی میں اپنا حق لے کر رہیں گے انہوںنے کہا کہ اپوزیشن حکومت کا پہیہ جام کرچکی ہے حقائق عوام کے سامنے لا کر حکومت کو بے نقاب کیا ہے جب تک صوبے میں جمہوری سیاسی لوگ موجود ہیں دنیا کی کوئی طاقت ہمارا حق نہیں چھین سکتی حکومت کہہ رہی ہے کہ صوبے میں برابر کی بنیاد پر فنڈز تقسیم کئے گئے ہیں جو درست نہیں عید کو گزرنے دیں۔

دما دم مست قلندر ہوگا اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی ۔بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ یو این ڈی پی کی رپورٹ کو پرکھنا چاہئے کہ آیا صوبے میں کیا ہورہا ہے پسماندگی کے باوجود میرے حلقے میں مختص فنڈ ز سے ایک روپیہ خرچ نہیںہورہاجبکہ دیگر حلقوں میں اربوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں انہوںنے کہا کہ حکومتی رکن عبدالخالق ہزارہ نے اسمبلی فلور پر کھڑے ہو کر کہا کہ انہیں سڑک نالی سٹریٹ لائٹس ہسپتال کی ضرورت نہیں۔

اس کے باوجود حکومتی رکن کے حلقے میں اربوں روپے کے فنڈ ز دیئے گئے ہیں جس کا مقصد ان کا منہ بند کرانا ہے انہوںنے کہا کہ مجھے میرے حلقے کے لئے تمام بنیادی انسانی سہولیات کی ضرورت ہے مگر یہ سہولیات فراہم نہیں کی جارہیں یہ فلور اس بات کا گواہ ہے کہ موجودہ حکومت اس صوبے کے عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی کررہی ہے اگر آئندہ پی ایس ڈی پی میں بھی اپوزیشن کے حلقوں کو نظر انداز کیا گیا۔

تو نہ صرف اپوزیشن اراکین اسمبلی میں احتجاج کریں گے بلکہ صوبے کے طول و عرض میں لوگ سڑکوں پر نکلیں گے اور حکومت کی تابوت میں آخری کیل ٹھونکیں گے ۔صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ2013ء سے2018ء تک میرے حلقے میں ایک ڈیم نہیں بنا جبکہ تحصیل دو بندی میں 300ڈیم بنائے گئے گزشتہ دور میں ایک بل پر ایک ارب روپے جبکہ ایک منصوبے میں45کروڑ روپے کے کمیشن لئے گئے ۔

بلوچستان ہم سب کا مشترکہ صوبہ ہے موجودہ حکومت مکمل طو رپر ایمانداری کے ساتھ کام کررہی ہے اور میں چیلنج کرتا ہوں کہ کرپشن کی نشاندہی کی جائے عوام2023ء میں ہمارا احتساب کریں گے بی این پی کے رکن اختر حسین لانگو نے کہا کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کا تعلق گورننس سے ہے حکومت نے واسا کے فنڈ ز ڈھائی سال بعد بھی فراہم نہیں کئے جس کی وجہ سے آج کوئٹہ کے تین سو ٹیوب ویل بند پڑے ہیں اور عوام ٹینکر مافیا کے رحم وکرم پر ہیں چھ ماہ سے ڈیڑھ سو ٹیوب ویلوں کی مرمت کے ٹینڈر ز منسوخ ہورہے ہیں ۔

جس کی وجہ سے صوبے میں ٹیوب ویلوں کی مرمت نہیں ہوپارہی بلوچستان میں گورننس ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی ۔ اجلاس میں جے یوآئی کے عبدالواحد صدیقی نے اپنی قرار دادپیش کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک روٹ جو کوئٹہ پشین قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے اضلاع سے ہوتے ہوئے بوستان ، ناناصاحب اور خانوزئی کی تحصیلوں سے گزرنے کی وجہ سے لوگوں کی زرعی اراضیات ، مکانات اور دکانات کی ایک بڑی تعداد متاثر ہورہی ہے۔

اس سلسلے میں متاثرین کو اعتماد میں نہیں لیا جارہا اور نہ ہی شاہراہوں کی نشاندہی اور نہ ہی روڈ کے نقشہ جات آویزاں اور یٹس وضع کئے گئے جس کی وجہ سے متاثرین میں بے چینی اور تشویش پائی جائے گی۔

لہٰذا صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرے کہ وہ کوئٹہ پشین قلعہ سیف اللہ اور ژوب کے اضلاع میں بالعموم بوستان نانا صاحب اور خانوزئی تحصیلوں میں بالخصوص زرعی اراضیات مکانات اور دکانات کے مالکان متاثرین کوا عتماد میں لینے کے ساتھ شاہراہوں کی نشاندہی مذکورہ شاہراہ کے نقشہ جات آویزاں اور ریٹ آویزں اور وضع کرنے کو یقینی بانئے تاکہ متاثرین میں پائی جانے والی تشویش اور بے چینی کا خاتمہ ہوسکے ۔

انہوںنے کہا کہ جس روٹ پر شاہراہ تعمیر کی جارہی یہ اس کا نقشہ متعلقہ تحصیل میں آویز اں کیا جائے تاکہ لوگوںکو پتہ ہو کہ سی پیک کا روٹ کیا ہے اور روڈ کہاں سے کہاں گزررہا ہے زرعی اراضی کو بنجر کمرشل کو زرعی اراضی ظاہر کرکے ریٹ مقرر کئے گئے ہیں اس پر بھی نظر ثانی کی جائے بعدزاں ایوان نے قرار داد متفقہ طور پر منظور کرلی ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہ 10اپریل کو اسلام آباد میں لینڈ مافیا کے مسلح دہشت گردوں کی جانب سے ژوب کے شہری اور پشتونخوا میپ کے رکن میر وائس خان مندوخیل کو بے دردی سے شہید کیا گیا ۔ جس کی بناء اسلام آباد میں مقیم بلوچستان سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سخت تشویش اور خوف و ہراس پایاجاتا ہے۔

لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرکے کہ وہ شہید میر وائس خان کے قاتلوں اور اس قتل کے پیچھے محرکات ایف آئی آر میں نامزد تمام ملزمان کو گرفتا ر کرکے قرار واقعی سزادی جائے ۔نصراللہ زیرئے نے کہا کہ میر وائس مندوخیل کی اراضی پر راجہ ناصر نامی شخص نے قبضہ کیا تھا جس کے خلاف میر وائس عدالت بھی گیا ۔

جہاں سے راجہ ناصر کا سٹے آرڈر منسوخ ہوا اور دس اپریل کو جب وہ اپنے بھائی عجب خان کے ساتھ زمین پر گیا تو مافیا نے فائرنگ کردی جس سے وہ شہید ہوگیا انہوںنے کہا کہ حکومت اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہئے تاکہ لوگ اپنی زمین کے مالک بن سکین اور لینڈ مافیا کے لوگ قتل و قتال سے پہلے جیل بھیجے جائیں ۔ انہوںنے ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ وہ اس حوالے سے اسلام آباد انتظامیہ سے رابطہ کریں۔

تاکہ راجہ ناصر کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے ہم متاثرہ خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ سے میں رابطہ کروں گا جہاں بھی ظلم ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں بعدازاں ایوان نے قرار داد منظور کرلی ۔جے یوآئی کے میر زابد ریکی کی ایوان میں عدم موجودگی پر ان کی قرار داد اگلے اجلاس تک موخر کی گئی اور بعدازاں اجلا س پیر 26اپریل تک ملتوی کردیاگیا