|

وقتِ اشاعت :   February 11 – 2022

دنیا میں پاور پالیٹکس کی اہمیت بہت زیادہ ہے عالمی طاقتوں نے ہر وقت اپنے مفادات کے تحفظ اور معیشت کو تقویت دینے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو زیرعتاب رکھا۔ پہلی اوردوسری جنگ عظیم میں سب سے بڑی کالونی بننے والے ممالک پر عالمی طاقتوں کا غلبہ صدیوں تک برقرار رہا اور انہی ممالک کے روٹس، جنگ کے لیے افرادی قوت، وسائل استعمال کرتے رہے مگر جیسے ہی دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی تو الگ بلاک بننا شروع ہوگئے اور ایک نئی جنگ جسے معاشی جنگ قرار دیا گیا اس پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اتحادوں کی تشکیل شروع ہوئی جو تاہنوز جاری ہے۔

عالمی طاقتیں اپنی مفادات کے بغیر کسی بھی ملک میں سرمایہ کاری، سفارتکاری کو ترجیح نہیں دیتے محض استعمال کے بعد ان سے تعلقات غلامانہ رکھتے ہیں مگر ان کی ایک بڑی کمزور ی یہ بھی ہے کہ جہاں ان کی مارکیٹ ہوتی ہے ان ممالک کے ساتھ بہ امر مجبوری بہترین تعلقات رکھتے ہیں تاکہ اپنی معیشت کو پروان چڑھاسکیں اور جن کے ساتھ معاشی، دفاعی حوالے سے کوئی غرض نہیں تو کام نکالنے کے بعد انہیں سائیڈ لائن کردیتے ہیں اپنی مرضی کے مطابق تعلقات رکھتے اور ختم کرتے ہیں،برابری تو کجا ایک اچھا دوست بن کر ان کے لیے معاشی مارکیٹ کے دروازے تک بند کردیتے ہیں۔یعنی ایک بڑی اتحاد سرمایہ دارانہ ممالک کی ہے جو اب تک اپنے مفادات کے لیے پوری دنیا پر راج کررہے ہیں جب چاہے جواز بناکر کسی ملک کوتہس نہس کردیں کسی کو جوابدہ نہیں یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے نوٹس سے لیکر قراردادوں تک،سب ان کے لیے بے معنی ہیں اور یہ تماشا سب نے عراق سے لیکر افغانستان پر حملے تک کے دوران دیکھا ہے۔

بہرحال وزیراعظم عمران خان کا امریکہ کے ساتھ تعلقات کا شکوہ حیران کن ہے کیونکہ امریکہ نے ہر وقت اپنے مفادات کی ہی خاطر پاکستان سے تعلقات بنائے رکھااور یہ بھی کہاگیا کہ پاکستان کو جنگ کے لیے رقم دی گئی ہے۔ رضاکارانہ طور پر سوویت یونین سے لیکر نائن الیون تک تعلقات دوستی کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفادات کی وجہ سے رہے ہیں۔جہاں تک چین کے ساتھ دوستی کا تعلق ہے تو یہاں پر بھی چین کے معاشی اہداف ہیں گوکہ بعض مسائل پر چین پاکستان کے ساتھ کھڑا رہتا ہے مگر ان کی ترجیحات بھی پاکستان میں اپنی مارکیٹ بنانا ہے،یہاں سرمایہ کاری کرکے بڑے پیمانے پر منافع کمانا ہے۔سچ کو تسلیم کرنا ضروری ہے کیونکہ دنیا کی سپر پاور ممالک اپنے مفادات کے تحت ہی تعلقات کے سمت کا تعین کرتے ہیں۔ گزشتہ روز غیرملکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ امریکا نے پاکستان کو ہمیشہ اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا اور جب جہاں امریکا کو ہماری ضرورت پڑی تو امریکا نے تعلقات استوار کیے اور پھر چھوڑ دیا۔

ایسابھی وقت تھا جب پاکستان کے امریکا سے دوستانہ تعلقات تھے اور جب پاکستان کی ضرورت نہ رہی تو امریکا نے پاکستان سے دوری اختیارکرلی، بعد میں امریکا اور پاکستان کے دوستانہ تعلقات بحال ہوگئے، سابق سوویت یونین کیخلاف جنگ میں پاکستان امریکا کا دوست بن گیا اور امریکا نے اس وقت ہماری مدد کی لیکن سوویت یونین کے افغانستان سے جاتے ہی امریکا نے پاکستان پر پابندیاں لگادیں۔ان کا کہنا تھا کہ 10 سال بعد نائن الیون ہوا تو امریکا پاکستان کے تعلقات پھر سے اچھے ہوگئے، جب افغانستان میں امریکا ناکام ہوا تو شکست کاذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا گیا۔وزیراعظم نے کہا کہ امریکا سے پاکستان کے ویسے تعلقات نہیں رہے جیسے چین کے ساتھ ہیں، چین پاکستان کا ہر آزمائش پر اترنے والا دوست ملک ہے اور 70 برس سے پاکستان اور چین کے تعلقات میں تسلسل چلا آرہاہے، پاکستان ہر فورم پر چین کیساتھ رہاہے اور ہر ضرورت پرپاکستان کا ساتھ دیاہے۔البتہ مندرجہ بالاسطورمیں جس طرح تعلقات کے حوالے سے ذکر کیاگیا ہے اس پر وزیراعظم نے باتیں کی ہیں اسی طرح کا ہی معاملہ ہے مستقبل میں کس طرح پاور پالیٹکس میں اپنے کو لانا اور معاشی،دفاعی حوالے سے خود کو مضبوط کرنا یہ ریاست کی پالیسیوں پر منحصر ہے محض چین کے ساتھ ہی تعلقات نہیں بلکہ تمام ممالک کے ساتھ اچھے اور دوستانہ تعلقات ضروری ہیں۔

اس وقت پاکستان کو ایک دوست کی نہیں بعض ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت ہے خاص کر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات انتہائی اہم ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں بھارت کے ساتھ تعلقات پر بھی بات کی ہے کہ ہماری حکومت کی ترجیح تھی کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ ماحول کے ذریعے تعلقات کو ایک بارپھر بہتر کئے جائیں مگر نہیں ہوئے لیکن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتکاری پر توجہ دینا انتہائی اہم ہے اورموجودہ حالات کا تقاضا یہی ہے،شکوہ کرنے سے فرق نہیں پڑتا،پاور پالیٹکس کرنے والوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور اسی پالیسی پر ہی گامزن رہتے ہیں جن سے وہ اہداف حاصل کرسکیں۔