|

وقتِ اشاعت :   July 31 – 2023

اس واقعہ میں کتنا سچ اور جھوٹ ہے اس پر میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہوں گا، لیکن اگر ایسا واقعہ ہوا ہے تو یہ نہایت ہی سنگین معاملہ ہے۔ اس وقت 65000 طلباء و طالبات یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں جن میں سے کم وبیش 32000 کے قریب طالبات ہیں جن کو یہ ادارہ تعلیم کی روشنی سے نواز رہا ہے۔۔
آج آپ سوشل میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر جاتے ہیں تو آپ کو یہ ٹاپ ٹرینڈ نظر آرہا ہے۔ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم بنا سوچے سمجھے کچھ بھی آگے فارورڈ کرتے رہتے ہیں، جس کے نتائج ہمیں خود معلوم نہیں ہوتے۔ اس وقت اس واقعہ کو ٹاپ ٹرینڈ بنانے میں ہماری اپنی عوام کا بھی ہاتھ ہے کہ انہوں فارغ التحصیل ہماری اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں کو مشکوک بنا دیا ہے۔
اس وقت کوئی بھی غیر اخلاقی ویڈیو جو نظر آئے تو یونیورسٹی کے نام سے فارورڈ کیا جا رہا ہے۔ بنا کسی تحقیق کے ہر کوئی اپنا تجزیہ پیش کر کے اپنا نام بنانے کی کوشش کر رہا ہے،لیکن اسکا معاشرے پر کیا اثر پڑے گا اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔۔
اسکا پہلا برا اثر وہاں پر اپنے بچوں اور بچیوں کو بھیجنے والے ماں باپ پر پڑ رہا ہے، جو اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کروا رہے ہیں تاکہ انکا مستقبل اور ملک مستقبل روشن ہو سکے۔۔ اب ان کے ذہنوں میں کس طرح کے خیالات جنم لیں گے؟ مستقبل قریب میں کیا وہ اپنے بچوں، خاص کر بچیوں کو اس تعلیمی نظام میں تعلیم کی روشنی سے آراستہ کرنے کے لئے کتنا آمادہ ہوں گے؟ اس کے بعد اسکا دوسرا برا اثر وہاں تعلیم حاصل کرنے والی طالبات پر پڑ رہا ہے جن کی عزتوں کی دھجیاں میڈیا پر اڑائی جا رہی ہیں۔ انکی عزتوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔۔ اور تیسرا برا اثر اساتذہ کی ساری کمیونٹی پر پڑ رہا ہے، جس کے بارے میں پاکستانی معاشرے کا ہر ایک فرد یہ تاثر دے رہا ہے کہ پاکستان کی سبھی یونیورسٹیوں میں یہی کام ہوتا ہے اور سبھی ایسا ہی کرتے ہیں۔۔ بنا تحقیق سارے اساتذہ کی کمیونٹی کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔چوتھا برا اثر پورے ملک بالخصوص ہمارے بلوچستان کی لڑکیوں کی تعلیم پر پڑ رہاہے کہ یہاں لڑکیوں کی تعلیم پر بہت کم لوگ آمادہ ہوتے ہیں اس واقعے کے بعد مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان لڑکیوں کی پڑھائی بند نہ ہوجائے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے ذاتی و انفرادی اعمال کا بوجھ آپ باقی سب لوگوں پر نہیں ڈال سکتے اور نہ ہی ایسا ہوتا ہے۔ کیا پاکستان پچھلے 75 سالوں سے اساتذہ کے بغیر آگے بڑھ رہا ہے؟ کیا قوم کی ترقی میں اساتذہ کا کوئی کردار نہیں ہے؟ ہمیں بحیثیت مجموعی یہ سمجھنا ہو گا کہ کسی بھی معاشرے میں، ادارے میں سبھی لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، اچھے اور برے لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ بس ہمیں ان کی نشاندہی کرنا ہے اور اس کے مطابق فیصلہ کرناہوتا ہے۔۔ دوسری بات، کیا ایسا واقعہ ہونے سے آپ 32000 طالبات کو ایک کٹہرے میں کھڑی کر سکتے ہو؟؟ آپ کو کسی نے یہ حق نہیں دیا کہ آپ لوگوں کی عزتوں کو بدنام کرتے رہیں، یہ کوئی قانون نہیں کہ کسی ایک یا کچھ افراد کی ذاتی معاملات کو آپ سب لوگوں پر اپلائی کر دیں۔ نہ ہی یہ سچ ہوتا ہے اور نہ ہی ایسا سوچنے اور کرنے میں کوئی منطق ہے۔ ہمیں باشعور انسان ہونے کا ثبوت دینا ہو گا اور سمجھنا ہو گا کہ ہر جگہ اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ انفرادیت سے نکل کر حقائق پر فیصلہ کریں۔۔
اب ایک بات یہ سامنے آئی ہے کہ وہاں منشیات کا کام عروج پر تھا۔ اگر ایسا ہے تو میرا سوال ہے کہ کیا یہ پاکستان کی پہلی ایسی یونیورسٹی ہے جہاں پر منشیات کی لت طلباء و طالبات کو لگی ہوئی ہے؟
اگر آپ نظر اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو پاکستان کی تقریباً ہر ایک یونیورسٹی اور معاشرے کے دوسرے علاقوں میں بھی منشیات کے ٹھیکیدار نظر آئیں گے۔ اسلام آباد ہو، لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ یا پھر کراچی ہو نیز کسی بھی شہر کی یونیورسٹی اور علاقے کو اٹھا لیں، آپ کو منشیات کی ڈور میں الجھے طلباء و طالبات نظر آئیں گے۔ ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ اینٹی نارکوٹکس کا ڈیپارٹمنٹ ہونے کے باوجود ہمارے بچوں کو اس طرح مشکوک معاملات میں کون گھسیٹ رہا ہے؟ منشیات کے فروغ کو روکنے والے ادارے کہاں ہیں؟ اگر ایک سمجھدار انسان سوچے تو ان منشیات کا آغاز ایک سگریٹ سے ہوتا ہے، جو آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور پاکستان میں سگریٹ تو ہر ایک دوکان پر آپ کو آسانی سے مل جاتی ہے۔تو کیا پاکستان کے نظام میں کہیں یہ موجود ہے کہ اس سگریٹ نوشی کو روکا جا ئے؟
آپ اگر پورے پاکستان کے نظام کا بغور جائزہ لیں تو آپکو یہ سب معاملات پاکستان کے ہر ایک ادارے میں نظر آئیں گے۔ کہیں اسکی شکل کرپشن کی ہے، کہیں ظلم کی، کہیں جھوٹ کی، کہیں سود کی، کہیں استحصال کی۔ لیکن ان سب سماجی اور اخلاقی برائیوں کی شکل پورے پاکستانی معاشرے میں موجود ضرور ہے۔ پاکستان کا پورا معاشرہ اور اس معاشرے میں رہنے والا ہر ایک شہری ان سماجی و اخلاقی برائیوں سے پریشان نظر آتا ہے۔ یہاں یہ کسی ایک فرد کی ذاتی نوعیت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ قومی سطح پر موجود ہے۔ انکا مؤثر حل بھی قومی سطح پر ہونا چاہئے۔ یہ اس نظام کی خرابیاں ہیں، جس کے اثرات معاشرے میں اپنا جال بچھائے بیٹھے ہیں۔ یہ وہی نظام سرمایہ دارانہ ہے جسے اسلام کا لیبل لگا کر پاکستان پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ اگر اسلامی نظام ہوتا تو اسکے اثرات معاشرتی برائیوں کے خاتمے اور معاشی خوشحالی کی شکل میں نظر آتے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مجموعی مسائل پر غور و فکر کیا جائے اور اس کے لیے جدوجہد اور کوشش کی جائے۔