|

وقتِ اشاعت :   February 24 – 2024

پاکستان موجودہ حالات کے تناظر میں سیاسی و معاشی چیلنجز سے دوچار ہے ایک طرف الیکشن کے بعد کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت نہیں ملی جس کی وجہ سے کوئی بھی ایک جماعت مرکز میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

ن لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی نے مرکز میں زیادہ نشستیں تو لی ہیں مگر ان کو حکومت بنانے کیلئے اتحادی چاہئے جس پر ن لیگ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، باپ، پاکستان استحکام پارٹی مل کر حکومت بنارہی ہیں مگر کابینہ میں فی الحال پیپلز پارٹی شامل نہیں ہورہی البتہ صدر مملکت سمیت چند اہم عہدے لے کر ن لیگ کے نامزد کردہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی حمایت کررہی ہے جبکہ پی ٹی آئی سمیت کسی بھی بڑی جماعت خاص کر ن لیگ اور پیپلز پارٹی جن کے پاس مرکز میں ایک اچھی پوزیشن میں نشستیں ہیں ان کے ساتھ کسی صورت بات چیت کیلئے تیار نہیں اب وہ کیسے حکومت سازی کرسکتی ہے۔

دعویٰ تو پی ٹی آئی کا بڑا ہے کہ انہوں نے 100 سے زائد نشستیں حاصل کی ہے مگر دھاندلی کرکے ان کے امیدواروں کی جیت کو شکست میں تبدیل کیا گیا ہے ۔کتنے تعجب کی بات ہے کہ کے پی کے میں ان کے ساتھ دھاندلی نہیں ہوئی جہاں سے نشستیں حاصل کیں وہاں شفاف انتخابات ہوئے جبکہ جن حلقوں سے ہارہوئی وہاں دھاندلی کا رونا رو رہی ہے حالانکہ یہی بات پیپلز پارٹی اور ن لیگ بھی کررہی ہیں کہ بعض حلقوں سے ان کی جیتی ہوئی سیٹیں ہاتھ سے چلی گئیں مگر وہ ایسا کوئی اقدام نہیں اٹھاتے جس سے ملک بڑے بحران سے دوچار ہو۔

کمشنر راولپنڈی نے بھی اپنے جھوٹے بیان سے پردہ چاک کیا اور سب کچھ اگل دیا ،لہذااب مزید اداروں خاص کر اعلیٰ عدلیہ کو ہدف بناکر اسے متنازعہ بنانے کی گھناؤنی سازش نہ کی جائے مگر پی ٹی آئی تو مزید چار قدم آگے بڑھ کر وہ کام کرنے جارہی ہے جس سے ملک بہت بڑے بحرانات میں دھنس جائے گی۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے معاملے پر آئی ایم ایف کو خط لکھیں گے جس میں کہا جائے گا کہ جتنے حلقوں میں دھاندلی ہوئی وہاں آڈٹ کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اس آڈٹ میں جوڈیشری کا عمل دخل بھی ہو، اگرآڈٹ نہیں ہوتا تو آئی ایم ایف سے قرض کا اقدام ملک کیلئے نقصان دہ ہوگا۔ یہ انتہائی اقدام ہے جو بانی پی ٹی آئی اپنی ذات اور بقاء کیلئے کررہا ہے، 2018ء کے عام انتخابات سے لے کر بانی پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تک موصوف کی پوری کوشش رہی کہ وہ سسٹم کو اپنے کنٹرول سے جانے نہ دے جس کے لیے اس نے وہ تمام کام کئے جو جمہوری اقدام کے منافی تھے ،اب بھی وہ اپنی ذات کیلئے سب کچھ کرنے جارہے ہیں۔

بہرحال یہ خط ملکی سبکی کا باعث بنے گا اور ساتھ ہی ملک کیلئے نئے مسائل کا باعث بھی بنے گا جس کا نقصان بہت زیادہ ہوسکتا ہے۔