بلوچستان کی تقدیر ایسی ہے یا اس کے ساتھ ایسا خونی کھیل کھیلا جاتا ہے کہ بلوچستان ہمیشہ بری خبروں کی زد میں رہتا ہے۔ کسی دن کوئی اچھی خبر مل جائے تو اگلے دن ہی کوئی بری خبر اچھی خبر کو کھا جاتا ہے اس طرح ایک بار پھر مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔ بلوچستان میں ایک طویل خشک سالی کے بعد جب بادلوں نے برسانا شروع کیا تو برستے ہی چلے گئے۔ بلوچستان والوں نے جتنا مانگا تھا ان کی توقعات سے سو گنا زیادہ عطا ہوا۔
Posts By: شبیر رخشانی
ہزارہ برادری کے جینے کا سوال
2015کو جب اسلام آباد گیا تو یہ شہر میرے لیے بالکل ہی انجا ن تھا۔ آدمی جب بھی دوسرے شہر چلا جاتا ہے تو شہر اس کے لیے بیگانہ ہوجاتا ہے وہاں کے لوگ، وہاں کا ماحول، یہاں تک کہ وہاں کا آب و ہوابھی۔ لیکن مجھے وہاں جلد ہی گھل ملنے کا موقع مل گیا رہائش کے لیے ہاسٹل تھے اور ہاسٹل کا معقول کرایہ مجھے وہاں رہنے کا موقع فراہم کر گیا۔ ہاسٹل کے قریب ایک ہوٹل تھا ’’کیفے کوئٹہ‘‘ کے نام سے۔۔ ہوٹلوں کے حوالے سے آپ جہاں بھی چلے جائیں کوئٹہ کا نام بہت زیادہ بکتا ہے اور ہوٹل مالک سے لے کر وہاں کام کرنے والے سبھی کوئٹہ یا دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں۔
زہگانی لبزانک الم بہ بیت
منا ہما وہد کموکمو یات کیت وہدے مئے ہند و دمگاں گونڈوانی ماہتاک ’’ بزم ء اطفال‘‘ ءُُ دگہ یک ماہتاکے ’’ ساتھی‘‘ ءِ نام ءَ اتک من آ وہد ءَ کہ کسان اتاں منا ہمے ماہتاک باز دوست بوتاں من ایشاں ءَ یکیں نشت ءِ توک ءَ وانت ءُُ ہلاس کرت پدا آوکیں ماہتاک ءِ ودار کت ۔
’’فرسٹ ایڈ‘‘ ٹریننگ کیوں کر ضروری ہے؟
کسی کے جسم پر کوئی کٹ لگ جائے اور اس حصے سے خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنے کے لیے کیا کیا جائے ۔ماضی میں گھریلو ٹوٹکے استعمال میں لائے جاتے تھے ،کوئلہ پیس کر کٹ والی جگہ پر لگا لیا خون تو بند ہوا مگر کوئلے کی سیاہی عمربھر کے لیے اپنا داغ اس حصے پر چھوڑ جاتا۔ کسی کے مسلز میں کچھاؤ آجاتا یا کوئی گر کر زخمی ہوجاتا تو ہلدی اور سرسوں کا تیل ملا کر اس حصے کو مالش کیا جاتا تب کہیں جا کر افاقہ ہوتا۔
ناڑی وال ادبی میلہ
ہمارے ہاں گمان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ کتابوں کا دور ہی ختم ہو گیا۔ کتاب پڑھنے والے کم رہ گئے ۔ سوچتا ہوں کہ اگر کتابیں پڑھنے والے کم ہی رہ گئے ہیں توکتابیں اتنی حساب سے مارکیٹ میں آ کیوں رہی ہیں۔ دراصل ہم بیٹھے بیٹھے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ دور ختم ہوا وہ دور شروع ہوا۔ رخ اور انداز ضرور بدل گئے مگر سلسلے ختم نہیں ہوئے بلکہ چل رہے ہیں۔
وھیل کی موت
وھیل کی موت واقع ہوئی۔۔ ہاں وھیل کی۔۔ آپ نے سنا نہیں۔۔ گوادر کے ساحل پر ملی لاش وھیل کی تھی۔۔ پانی کو اتنا بھی گوارا نہیں ہوا کہ وہ لاش کو زمین زادوں کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے اندر سمو لیتا۔ اب کیا کیا جائے بھلا سمندر سے گلہ کون کرے اور گلہ بنتا بھی نہیں، سمندر کے اندر اتنا شور جو ہے کہ اسے کوئی اور شور سنائی نہیں دیتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ شور کی آلودگی سے مر گیا ہو۔ آہ۔۔۔ یہ شور کی آلودگی بھی۔۔ اب اس آلودگی کو کون سمجھائے کہ اس کی وجہ سے کتنے خاندان تکلیف میں ہیں اور نہ جانے کتنی جانوں کا زیاں ہو رہا ہے کہ آواز ذرا دھیما رکھے۔ مگر جسم پر یہ تشدد کے نشان کیسے۔۔ کیسی لاقانونیت ہے اب اس لاقانونیت سے سمندر بھی آزاد نہیں رہا۔ سمندر کے اندر نہ جانے اب کون کون سی خرافات جنم لے رہی ہیں کہ سانس لینے کی آزادی بھی دشوار ہو گئی ہے۔
دردمندانہ تقاریر سے بلوچستان کا روحانی علاج
وزیراعظم عمران خان بلوچستان کے دورے پر پہلے کوئٹہ تشریف لے آئے۔ کوئٹہ کے باسیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور وہ گنجان آباد شہر سے دور پندرہ منٹ کی گرما گرم تقریر بطور لیکچر سناکر گوادر چلے گئے۔ تقریر کم تجاویز زیادہ تھے۔ ٹی وی پر نشر کی جانے والی تقریر میں وہ جام کمال کے معترف نظر آئے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف کے کارناموں کے پل باندھتے نظر آئے۔
’’طلبا سیاست‘‘ سے خوفزدہ کیوں؟
بلوچستان یونیورسٹی کے اندر داخلے سے قبل شناخت کرانا لازمی ہے چند سال قبل ایسا نہیں تھا۔ داخلے کا وحدا ذریعہ مین گیٹ ہی ہوا کرتا تھا یہ گزرگاہ گاڑی اور پیدل چلنے والے دونوں کے لیے ہوا کرتا تھا جہاں سے بلا روک ٹوک سب داخل ہوتے تھے۔ یونیورسسٹی کے سبزہ زار پر بیٹھے طلبا کے درمیان چل رہی ڈسکشن اور موضوعات پر اسٹڈی سرکلز طلبا تنظیموں کے زندہ ہونے کی نوید سناتی تھی۔ یونیورسٹی کی درختیں طلباء تنظیموں کے جھنڈ سے مزین ہوا کرتے تھے۔ اسٹوڈنٹ داخلے کا مسئلہ ہو یا کہ ہاسٹل میں رہائش کا سیٹ اپ، کمان طلبا تنظیموں کے ہاتھ ہوا کرتا تھا۔
حکومتی امداد کے منتظر،بلوچستان کے تباہ حال زمیندار
موسمیاتی تبدیلی کیا ہے اس کے اثرات انسان کی ذاتی، سماجی اور معاشی حاالات پر کیسے پڑتے ہیں اس کا مطالعہ ہم مختلف کتابوں سے اور مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ موسم اپنا تیور کس طرح بدلتا ہے لوگوں سے ان کی زندگی کس طرح چھین لیتی ہے ایسے ہی موضوعات پر دستاویزی فلم اور فلمی خاکے بنائے جا رہے ہیں۔ ہندی سینما نے گزشتہ سال ایک فلم ’’کڑوی ہوا‘‘ کے نام سے بنائی تھی۔
سوال ہے جینے کا
سرداروں، وڈیروں، نوابوں، جاگیرداروں کا علاقہ بھاگ ناڑی۔۔ کبھی سبی تو کبھی کچھی کے پلو باندھ دیا جاتا ہے کبھی رندبادشاہی کرتے ہیں تو کبھی ڈومکی قابض آتا ہے ۔یہ سلسلہ برسوں سے چلتا چلا آرہا ہے۔ ہرکسی نے قسمت آزمائے، تخت و تاج ان کے حصے میں آئے، خوش حالی نے ان کا دامن گھیرا مگر بھاگ ناڑی کی قسمت میں تبدیلی نہیں آئی۔ تبدیلی فقط لفظو ں تک محدود رہی۔