مکالموں کی سرجری

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

میرا ضدی دوست نہ جانے کن خیالات کا مالک ہے بات بات پر اصرار کرتا ہے مکالمہ کرتا ہے سوالات کا انبار لگا تا ہے ۔ اکتا جاتا ہوں ۔ چھٹکارا پانے کی کوشش کرتا ہوں بیزار ہوکر کہیں دور چلا جاتا ہوں۔ مسجد گیا مندر گیا مزارات پر حاضری دی, دعائیں کیں، منتیں مانگیں نہ دعاؤں کا اثر ہوا اور نہ ہی منتیں پوری ہوئیں ۔ ہمت ہار کر بیٹھ گیا۔ وہ یکطرفہ مکالمے کا آغاز کرتا ہے میں چپ کرکے سنتا ہی چلا جاتا ہوں۔ روز نئے قصے کہانیاں۔ ایک نیاقصہ جو اُس نے چھیڑ دیادل ہی دل میں سلامتی کا خیال آیا۔ 

بلوچستان سڑک حادثات، ریسکیو 1122کا قیام

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

سڑک حادثات بھی کسی دہشتگردی سے کم نہیں، ایک ہی حادثے میں کئی جانیں چلی جاتی ہیں بے شمار لوگوں کو عمر بھر معذوری کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔پاکستان بالخصوص بلوچستان میں سڑک حادثات کو کنڑول کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ سڑک حادثات کیوں رونما ہوتے ہیں، اس کے محرکات کیا ہیں؟ 

دریجی میں غربت کیوں ہے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

لسبیلہ کا علاقہ دریجی انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے شہرت کا حامل علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔ بھوتانی برادران کا انتخابی حلقہ اور آبائی علاقہ ہے۔’’ تیرے پیار کے چرچے ہر زبان پر‘‘ کے مصداق دریجی کی ترقی کے چرچے ہر زبان پہ سنتے اور ٹی وی چینلز کی رپورٹوں میں دیکھتے چلے آرہے تھے۔ دریجی کے خوبصورت مناظر ٹی وی اسکرین پہ دیکھ کر اور رپورٹرز کو اس کی خوبصورتی کے گن گاتا ہوا دیکھ کر دریجی کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی چاہ پیدا ہوئی تھی۔

گوادر کے ماہی گیر چاہتے کیا ہیں؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گوادر کے ماہی گیر آخر چاہتے کیا ہیں نوبت کیوں آن پڑی سمندر کے بجائے سڑکوں کا رخ کرنے کی۔ کیا سمندر ان کی نہیں سن رہا تھا یا وہ سنانے سے قاصر تھے۔ سمندر کی موجوں سے کہیں انہیں شکایت تو نہیں تھی اگر شکایت تھی تو شکوہ سمندر سے کر لیتے موجوں سے نمٹ لیتے نہ جانے انہیں کیا سوجھی کہ انہوں نے سڑکوں کا انتخاب کیا۔

بلوچستان کا ڈاکٹر خالد سہیل کون؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

ڈاکٹر خالد سہیل ایک محسن ہیں جب سے ان کی تحریروں سے واسطہ پڑا ہے۔ تب سے ہم اُ ن کے گرویدہ ہو گئے ہیں ۔ڈاکٹر خالد سہیل کے نام سے میں پہلے انجان تھا جب سے ’’ہم سب‘‘ نے اپنا دروازہ کھولا تو بہت سے لکھاری سامنے آئے، لکھاریوں کی فہرست میں ڈاکٹر خالد سہیل کا نام سب سے اوپر آیا۔ ڈاکٹرصاحب کی تحریروں نے مایوس افراد کی زندگی میں جان ڈال کر ان میں امید کی کرن پیدا کی۔ کینیڈا میں مقیم انسان دوست یہ شخص کینیڈا سے باہر مقیم نفسیاتی امراض میں مبتلا افراد کا علاج اپنی تحریروں کے ذریعے کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب وہی کام کر رہے ہیں جو پاکستان میں مقیم معالج فیس لے کر بھی نہیں کر پاتا۔

ثنا بلوچ کا “دمادم مست قلندر”

Posted by & filed under خصوصی رپورٹ.

بلوچستان کی موجودہ اسمبلی آج کل ثنا بلوچ کی دبنگ انٹریز کی وجہ سے خبروں میں ہی رہتی ہے۔ اسمبلی میں نمایاں کردار اُن ہی کا نظر آتا ہے۔ زیادہ تر اراکین اسمبلی عوامی مسائل پہ تیاری کیے بغیر ثنا بلوچ جیسے ممبران کی تقریر سننے کے لیے اسمبلی کا رخ کرتے ہیں جبکہ ثنا بلوچ اپنی زوردار تقریر اور دبنگ انٹری کی وجہ سے اسمبلی کی سست فلور کو ہلانے کا کام کرتے ہیں۔ 

زندگی کی گاڑی چلتی رہے

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

آپ سے کوئی سوا ل کرے کہ آپ نے کبھی بس کا سفر کیا ہے؟ تو آپ کا جواب ہاں میں ہی ہوگا لیکن پوچھا گیا سوال آپ کو انتہائی غیرضروری لگے گا۔ اگر یہی سوال زندگی سے متعلق کیا جائے تو آپ یادوں کے جھروکوں میں چلے جائیں زندگی کا آغاز آپ نے کب اور کیسے کیا تھا بے سروسامانی کے عالم میں کہاں کہاں سفر کرتے رہے کیا کھویا کیا پایا بس پھر آپ کا وقت یادوں کا خزانہ چھان مارنے میں گزر جائے۔

شال کو ہوا کیا ہے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

گزشتہ شب شال (کوئٹہ) سٹی سے معروف نیورو سرجن ابراہیم خلیل اغوا ہوئے۔ اغوا کار کون تھے مغوی کو کہاں لے گئے نہیں معلوم۔ اغوا کی اطلاع ملتے ہی انتظامیہ حرکت میں آگئی ۔رات گئے چیکنگ کے نام پہ جگہ جگہ ناکے لگائے گئے۔ٹی وی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے سبب اُس وقت پتہ نہیں چلا کہ اچانک ہوا کیا ہے۔ صبح جب دو کالمی خبر پہ نظر پڑی تو پورا منظر نامہ سمجھ میں آ ہی گیا کہ رات کو ہوا کیا تھا۔ 

باشعور مکران بیگانگی کا شکار کیوں ہے؟

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

صبح صبح جب اخبار کا صفحہ چھان مار رہا تھا کوئی خوشگوار خبر ملی ہی نہیں کہ دل کا بوجھ ہلکا ہوتا، سوائے چیف جسٹس کے ایک مزاحیہ بیان کے ’’ دو تین گولیاں رکھ کر ایمرجنسی وارڈ بنا دیتے ہیں دوائیں میسر نہیں تو ہسپتال بند کر دیں‘‘۔ 

آواران کے انٹرنیز کی بحالی کا چیلنج

Posted by & filed under کالم / بلاگ.

اکیسویں صدی کے آغاز سے قبل آواران سے بیلہ اور تربت سے آواران کی سڑکیں کچی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن انہی کچی سڑکوں پر ٹریفک کی روانی ہوتی تھی۔ اشیا ء خوردونوش ایران سے سستے داموں لائی جاتی تھیں۔ لوگوں کو ارزاں قیمت پر چیزیں دستیاب ہوتی تھیں۔ تربت ٹو آواران روڑ پر چلنے والے ٹریفک کی وجہ سے جگہ جگہ ہوٹل اور کیبن کھلے رہتے تھے۔