گزشتہ چار پانچ مہینوں سے پورے مکران میں ایرانی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تمام لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے۔عالمی سطح پر ڈالر کے اْتار چھڑاؤ کی وجہ سے پاکستانی تیل کی قیمتوں میں جونہی اضافہ ہوتا ہے ایرانی تیل کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں یا بڑھائی جاتی ہیں
8اگست 2016ء ، بلوچستان کے سب سے بڑے اور مرکزی شہر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے بیچوں بیچ سول سنڈیمن ہسپتا ل میں پیش آنے والا ایک خونیں واقعہ جسے آج چھ برس پورے ہورہے ہیں۔آج ہی کے دن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر اور ملک بھر خون آلود اداسی غم اور سوگ میں ڈوب گیا تھا۔جب ’’خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہوا۔ایک ایسا دن جب صوبے کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع یا قصبہ ہو جس میں کوئٹہ سے تابوت نہ بھیجاگیا ہو۔ روشنیوں کے شہر کراچی اور کوئٹہ سے اندرون بلوچستان تابوت بھجوانے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ کافی عرصے سے یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اندھے واقعات ، بہرے حکمران اور کمزور حافظوں کے حامل معاشروں میں ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں۔مگرآٹھ اگست کو تو حد ہی ہوگئی۔اس دن شاید ہی یہاں ایسی کوئی آنکھ بچی ہو جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ایک ایسا دن جب دن دیہاڑے شب خون مارا گیا ،جب عقل و شعور کی ایک کھڑی فصل پل بھر میں کاٹ دی گئی جب60گھروں کے روشن چراغ بجھا نے کے لئے ایک ایسی باد صر صر چلی کہ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ صوبے کے مرکزی شہر اور دارلحکومت کوئٹہ کے وسط میں قائم صوبے کا قدیم سول سنڈیمن ہسپتال اس وقت معصوم انسانوں کے مقتل میں بدل گیا جب بلال انور کاسی کی میت لینے کے لئے ہسپتال آئے وکلاء اور ان کی کوریج کے لئے موجود صحافیوں کے بیچ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔
آج آٹھ اگست ہے۔ یہ وہی تاریخ ہے جب2016ء میں اس دن وہ سانحہ پیش آیا جس کے دیئے ہوئے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے اور ان سے وابستہ تلخ یادوں کاسلسلہ بھی کبھی ختم نہیں ہوگا۔یہ وہ دن ہے جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک ایسے واقعہ رونما ہوا جو صرف پشتون بلوچ ہی نہیں بلکہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی تاریخ میں ایک خونیں باب کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ یو ں تو بلوچستان کا ہر مہینہ اب ہم کو پشتون بلوچ شہداء کی یاد دلاتا ہے لیکن خاص طور پر اگست کے مہینے میں یہ یاد اور شدید ہوجاتی ہے 12اگست 1948کو بابڑہ میں فخرافغان باچاخان کی خدائی خدمت گار تحریک کے نہتے اور پرامن جلسے پر فائرنگ کرکے خونی باب رقم کیا گیا باچاخان نے اس روز اپنے چھ سو ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیںتب سے اب تک ہر سال اگست کے مہینے میں بابڑہ کے شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے یہاں بلوچستان میں 26اگست 2006کو سابق گورنراور جے ڈبلیو پی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو 79سال کی عمر میں ایک آپریشن میں شہید کیا گیا اور اب 8اگست 2016کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کے ذریعے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے 80وکلاء و عام شہریوں کو شہید کیا گیا
پا کستان بننے کے جلدبعد اقتدار پرسیویلین اور ملٹری بیورو کریسی نے قبضہ کیا تھا۔بیورو کریسی اس وقت بھی اتنی طاقتور تھی جتنی کہ آج ہے ۔اسکا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ بانی پا کستان محمد علی جناح کے چند اہم تقار یر ا ن کی زندگی میںسنسر ہوئے۔اس وقت بیوروکریسی کی اکثریت ہندوستانی مہا جروں اور پنجاب سے تھی ۔مشرقی پا کستان جسکی آبادی مغربی پا کستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ تھی کی بیوروکریسی میںنما ئندگی نہ ہونے کے سبب شروع سے محرومی کا شکار ہوئی۔25 سال تک نہ تو صحیح معنوں میں الیکشن ہوئے اور نہ آ ئین بن سکا۔ آخر کار 1970 میں جنرل یحییٰ خان نے ملک کی تاریخ میں پہلے آزادانہ اور غیر جا نبدارانہ الیکشن کرائے ۔ شیخ مجیب ا لرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی تمام نشستیں جیت کر سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔
حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں سے ایک بھی نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے سب پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پلیں بنائی تھیں جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کی بنی پلیں ناکارہ آخر کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالوں کا جواب کن لوگوں کے پاس ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔ ۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پلیں سو سال تک چلیں گی۔ جو صرف ایک بارش میں ہی بہہ گئیں۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل منہدم ہوچکے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟ اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنس گئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو کا پل جو چینی کمپنیوں نے بنایا تھا وہ بھی تباہ ہوکر سیلاب برد ہوگیا تاحال وہ بھی نہ بن سکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی مین شاہراہیں حال بند پڑی ہیں اس وقت بلوچستان میں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے برباد ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔
عام فکری مغالطہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دنیاکے نامور مورخین اور فلاسفر اس بات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں لیکن یہ بات کافی حد تک درست ثابت ہوئی ہے۔ بلوچستان کے حالات تو سو فیصد تاریخ کی عکاسی کشی کرتے ہیں۔ تاریخ کے اورق پلٹئے، آپکو بلوچستان میں برطانوی سامراج کی طرزِ حکومت آج بھی رائج ملے گی۔
وہ ایک نوجوان تھا لیکن اس کی رگوں میں خون بجلی کی طرح دوڑتا تھا۔ اس نے اسلامی فتوحات کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ جس شہر کو نامور سپہ سالاروں نے فتح کرنے کی بے شمار تگ و دو کی، لیکن شہر کو فتح کرکے اس کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مسلمان سات سو سالوں سے اس شہر کو فتح کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔
اس وقت بلوچستان کے نوجوانوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ کے ذریعے ایک مہم چلائی ہے جس میں لکھا گیا ہے ’’ ڈوبتا بلوچستان ،خاموش انتظامیہ ‘‘حالیہ بارشوں کو ایک ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔مگر آج تک وزیر اعظم پاکستان سمیت کسی بھی وزیر نے ایک سو بیس کے قریب سیلاب متاثرین جو انتقال کر گئے ان کے گھروں تک پہنچنے کی زحمت تک نہیں کی۔ چودہ سے زائد رابطہ سڑکوں کے پل مہندم ہوگئے ہیںپھر بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔کراچی سے لسبیلہ اور لسبیلہ سے کوئٹہ جانے والی سڑک کا برا حال ہوگیا ہے ،جو دس دن گزرنے کے باوجود تاحال بحال نہیں کی گئی ہے۔ انگریزوں کے دور کے بنائے گئے سب پل آج تک قائم و دائم ہیں مگر ہمارے دور جدید کے تمام پل پانی برد ہوگئے ہیں جو ایک انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔ حکمرانوں کاایسا رویہ دشمنوں کے ساتھ بھی نہیں ہوتا، جوبلوچستان کے لوگوں کے ساتھ ہے۔ہم لوگ دلی پر تو قبضہ کا ہر روز سوچتے ہیں۔مگر بلوچستان میں سیلاب متاثرین کیلئے کام کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ آخر ایسا رویہ کیوں ؟ کاش اسلام آباد میں موجود قومی اسمبلی اور سینیٹ کے لوگوں کو بلوچستان کا نقشہ مل جائے تاکہ وہ بلوچستان کا دورہ کرکے بلوچستان کے عوام کی داد رسی کریں یا جھوٹی تسلیاں ہی دے دیں۔شدید بارشوں کی وجہ سے اکثر بلوچستان کے لوگ سڑکوں اور نہروں کے کناروں بچائے جانے کے منتظر ہیں۔ جن کے پاس ایک مچھر دانی تک نہیں ہے افسوس اس بات کی کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کو ہیلی کاپٹر نہیں مل رہا ہے کہ کس ہیلی کاپٹر پر بلوچستان پہنچا جائے۔ بلوچستان تک پہنچنے کیلئے حکومت وقت کے نمائندوں کے پاس گاڑیوں کی بھی سخت کمی ہے یا پٹرول کے پیسے نہیں ہیں۔حالیہ بارشوں سے بلوچستان کے لوگوں کے مال مویشی، فصلیں اور گھر تباہ ہوگئے ہیں۔ اس وقت ریاست کہاں ہے؟ اس وقت حکومت وقت کہا ںہے؟ وزیر اعظم پاکستان صاحب اس وقت کہا ںہیں؟…فلڈ کنٹرول کہاں ہے…؟ این ڈی ایم اے کہا ںہے…؟ پی ڈی ایم اے کہاں ہے…؟ عدلیہ ،اشرافیہ کہاں ہے۔…؟ جو دعا زہرا کا کیس کئی ماہ تک لڑ سکتا ہے جو راتوں کو کھلتا ہے۔۔۔۔ حکومت گرانے اور بچانے کے لیے۔۔۔۔؟ آج بے یار مدد گار سڑکوں کے کنارے پر بیٹھے ہوئے لوگ کسی اعلیٰ عدلیہ کے شخص کو کیوں نظر نہیں آتے ہیںکیونکہ یہ بلوچستان ہے ۔
اسے کئی قسم کی مشکلات کے باوجود زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے، مختلف علوم پر مزید تحقیق کرنے اور ان پر کتابیں لکھنے کا شوق بلکہ جنون تھا اس لیے اکثر و بیشتر وہ دنیا کے تمام کام کاج چھوڑ کر تنہائی میں صرف علمی کام کرنے میں مصروف ہوجاتے تھے لیکن زندگی گزارنے کے لئے انسان کو روپے پیسے کی بھی ضرورت ہوتی ہے علمی اور تحقیقی کام سمیت دنیا کے دیگر کام بھی انسان اس وقت زیادہ بہتر اور پر سکون طریقے سے کرسکتا ہے جب اس کو کھانے،پینے اور پہننے کی طرف سے سکون حاصل ہو۔ وہ پوری توجہ اور لگن سے علمی کام کرنا چاہتا تھا لیکن ضروریات زندگی اس کی راہ میں رکاوٹ تھیں۔ ضروریات زندگی کے بندوبست کے سلسلے میں اس کا کافی وقت ضائع ہوجاتا تھا۔اس نے کافی غور فکر کے بعد ضروریات زندگی کے لیے ایک بہترین حل نکالا تاکہ کچھ روپے پیسے بھی ہاتھ آئیں اور علمی کام بھی ہوتا رہے۔ اس کی صورت انہوں نے یہ نکالی کہ چند پرانی کتابیں نقل کر کے شوقین لوگوں کو بیچتے اور اس سے اپنا گزر بسر کرلیتے تھے اس زمانے میں چونکہ کتابیں چھپتی نہ تھیں اس لئے انہیں ہاتھ سے لکھا جاتا تھا۔وہ سال بھر میں صرف تین کتابیں نقل کر کے ڈیڑھ سو دینار میں بیچ دیتے اور اسی رقم سے سال بھر کے لئے اپنے کھانے پینے اور پہننے کا انتظام کر لیتے۔ان کتابوں کے نام یہ تھے۔(1)اقلیدس (2) متوسطات (3) مجسطی۔
اقتصادی راہداری نے نہ صرف پاکستان کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان ہمہ جہتی اور کثیر جہتی تعاون کے ذریعے ہمہ موسمی سٹریٹجک تعاون پر مبنی شراکت داری کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اور پاکستان کی ترقی کے لیے اہم مواقع فراہم کیے ہیں۔ پاکستان اور چین کے درمیان کھلے، شفاف اور عملی تعاون نے نہ صرف دونوں ممالک کی اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ پڑوسی ممالک کو بھی فائدہ پہنچایا ہے اور علاقائی استحکام اور ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔