افسانہ……معاشرے کا تھپڑ

| وقتِ اشاعت :  


اسکا پورا وجود عجیب بیزاری میں ڈوبا ہوا تھا بہت دیر تک سردی میں تخت پہ تہنا بیھٹی وہ سوچوں میں گم رہی ڈھلاتا سورج اسکے وجود پہ بھی تاریکی کے سائے چھوڑتا جارہا تھا۔گہری سانس لے کے وہ اٹھی کیونکہ اسکے جانے کا وقت آچکا تھا اسے وہاں جانا تھا جہاں وہ نا چاہتے ہوئے بھی دن رات گزار رہی تھی جہاں وہ معاشرے کی باتوں سے گھبرا کے زبردستی باندھنے پہ مجبور کی گئی تھی معاشرے کے وہی نا ختم ہونے والے الفاظ عمر ڈھل جائے گی رنگت تو اتنی اچھی نہیں کہ تم کیڑے نکالو گی دیکھو بھلا بوڑھی ماں کے بعد کیا کروگی اکیلے عورتوں کے لیے یہ معاشرہ محفوظ نہیں کوئی سہارا مل جائے محفوظ ہوجاوگی۔



بیماری کا خوف

| وقتِ اشاعت :  


کورونا نے پوری دنیا کے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا۔انسانوں کے بنائے ہوئے مستقبل کے بڑے بڑے منصوبے ملیا میٹ ہو گئے۔انسانوں کو ایک نئی طرز زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔انسان اگرچہ پہلے بھی قلبی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہو چکے تھے لیکن کورونا نے جسمانی طور پر بھی انسانوں کو ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور کر دیا۔انسان کو معاشرتی حیوان اس لیے کہا جاتا ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے تعاون کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا،اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسے جذبات اور احساسات پیدا کر رکھے ہیں جن کی تسکین دوسرے انسانوں کے بغیر ناممکن ہے۔



افسانہ ……طلوع عشق

| وقتِ اشاعت :  


شام کے آخری پہر کے کالے گہرے سائے، سیاہ کالی رات کی آمد کی اطلاع دے رہے تھی اور یہ کالے سائے ناز بی بی کے دل پہ بھی انجانے خوف کی مانند امڈ رہے تھے۔اس کے دل پہ یہ شب ہتھوڑے کی ضرب جیسی لگ رہی تھی۔



براہوئی مزاحمتی شاعر

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے وسائل اور براہوئی مزاحمتی شاعری بلوچستان کی جغرافیہ اور اس کی زمین کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی اور آنے والے وقت میں پہلے سے زیادہ ملکی اور عاملی معیشت اور سیاست میں ایک ایسا حیثیت رکھنا ہے جسے کوئی بھی ملک او رسامراج اپنے آنکھوں سے اوجھل نہیں کرسکتاہے۔دینا میں ایک ایسا خطہ ہے جس کی روح اور رو حانیت جس کا حسن اس کے بہتے پانیوں کی جھنکار اس کی فضاؤں کی ٹھنڈی مہکتی ہوائیں دل کش اور رنگین قدرتی نظارے۔



وبائے عام میں مرنا گوارہ نہ ہوا

| وقتِ اشاعت :  


کرونا نے ادب پر بھی اپنے گہرے نقوش مرتکب کیئے ہیں بقول شخصے ادب تنقید حیات ہے۔۔ادب کی اس تعریف کو مشرق و مغرب میں ادب کی مقبول و معقول تعریف کہا جائے تو ہم شعر و ادب میں تاریخی سانحات کا عکس بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔ وبائے عام بھی شعری و نثری ادب کا موضوع ہے۔۔جس کی مثالیں دنیا کی بڑی زبانوں کے قدیم و جدید ادب میں مل سکتی ہیں۔۔کرونا کی صورت حال نے جس طرف پوری دنیا کو خوف کی بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔۔یہ اپنی جگہ ایسا عالمی سانحہ جسے ادب و صحافت نے اپنے مزاج سے دیکھا اور اپنے منظرناموں کا حصہ بنایا۔۔خصوصا”سوشل میڈیا پر کرونا نے وبائے عام کو ادب کے تخلیقی رویے کے طور پر دیکھنے کا رجحان تیزی سے ابھر رہا ہے۔اور اس بحث میں فارسی کے اس مشہور شعر کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔



جذبہ ایثار کی ضرورت

| وقتِ اشاعت :  


انسان معاشرتی حیوان ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال ودولت اور طاقت و اقتدار دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا ضرورت مند بھی بنایا ہے۔ انسان دنیا میں اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا، چاہے وہ امیر ہے یا غریب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دوسرے انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ضرورت دو طرح سے پوری کی جاتی ہے ایک معاوضے کے بدلے میں سودا کیا جاتا ہے اور دوسرا بغیر معاوضے، بغیر سیلفی،اور بغیر مطلب و مقصد کے صرف اللہ کی رضا کے لیے حاجت مند کی حاجت پوری کی جاتی ہے،جس کو دوسرے لفظوں میں صدقہ و خیرات بھی کہا جاتا ہے۔جس صدقہ و خیرات میں نمود و نمائش اور مقصد و مطلب آ جائے تو وہ صدقہ اپنی روح کھو دیتا ہے۔صحابہ کرا م کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے جو ہمہ وقت ایک دوسرے کی مدد کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔



وقت اورتم!!!

| وقتِ اشاعت :  


بریخناشہزاد ایک مصورہ اور پشتو زبان کی شاعر ہ ہیں۔ وہ کئی ٹی وی اور ریڈیو پروگراموں میں اپنی شاعری پیش کر چکی ہیں۔ ان کی شاعری پشتو کے ادبی جریدوں میں شائع ہوتی رہی ہے۔ ان کی مصوری کے فن پاروں کی بھی نمائشیں منعقد ہو چکی ہیں۔ بریخنا سماجی بہبود کی سر گرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہتی ہیں۔



سہون شریف قلندر کی نگری، عرس تقریبات ماند

| وقتِ اشاعت :  


برصغیر وپاک وہندمیں صوفی ازم کی جڑیں مضبوط ومربوط ہیں۔اسی کے توسط سے بھولی بھٹکی انسانیت کو راہ راست اور مہر ومحبت کے سلسلے کو برقراررکھتے ہوئے کڑی سے کڑی ملائی جاتی رہی ہے۔برصغیر پاک وہند میں صوفی شاعری کی ابتداء فارسی میں زیادہ پائی جاتی ہے، تاہم ہندی میں بھگت کبیر، سندھی میں شاہ لطیف بھٹائی ؒ اور سچل سر مست،پشتومیں رحمن بابا،پنجابی میں بابا بلھے شاہ، میاں محمد بخش اور سرائیکی میں خواجہ غلام فریدسمیت بلوچی میں مستیں توکلی اور جوانسال بگٹی کی صوفیانہ شاعری موجودہ انتہا پسندی کی سوچ کے خاتمے کے لئے پتھر پر لکیر کے مترداف ہے۔خاص کرمجھ نا چیز کا مشورہ اپنے آج کے نوجوان طبقہ کو ہے کہ وہ ان صوفیاء کرام کی شاعری کو پڑھیں،سمجھے اور عمل کرے تو نفرت کی دیواریں ختم اور محبت کے راستے خود بخودکھل جائیں گے۔