بلوچ قوم کی تاریخ اور مہر گڑھ

| وقتِ اشاعت :  


مجھے نہیں معلوم کہ جو قدیم شاعری ہم تک پہنچی ہے یا تاریخ کی جو کتابیں ہم پڑھتے ہے کس حد تک مستند ہے۔میں یہ سْوچ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ اکیسویں صدی میں جب میڈیا اور سْوچ کی آزادی اپنے عروج پر پہنچ چکاہے اس کے باوجود کوئی بھی تجزیہ نگار اور مصنف مکمل… Read more »



تحفظِ ذات کے تقاضے

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پہلی دہائی کے دوران سول انتظامیہ کی معاونت سے اور پھر بعد میں اسٹیبلشمنٹ پرست اورعوام دشمن شخصیات یا سیاسی پارٹیوں کے تعاون سے اختیارات پر براہِ راست قابض ہو کر پاکستان کے عوام پر حکمرانی کی ہے جو موجودہ دور تک مختلف شکل میں ملک کے عوام پر مسلط ہے۔… Read more »



” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “

| وقتِ اشاعت :  


شدید سرد رات میں کیچ کی گوریچ اپنے زوروں سے چل رہی تھی کجھور کے درختوں کی آوازیں بند کمروں میں بھی لوگوں کی نیند خراب کررہی تھی، تربت قلعے کی برج پر مکران لیوی کور کے دو سپائی موٹے چادر اھوڈے برج کی دیوار کے ساتھ لپٹے ہوئے پہرہ دے رہے تھے ،



گوادر شہر پھر ڈْوب گیا

| وقتِ اشاعت :  


گوادر شہر میں 17 اپریل کو ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد اب تک مْتاثر ہونے والے علاقوں میں زندگی معمول پر نہ آسکی ہے۔ جگہ جگہ کئی فٹ پانی کھڑا ہے جس میں ملا فاضل چوک سمیت اہم شاہرائیں شامل ہیں۔ گوکہ بارشوں کے بعد برساتی پانی کو ٹھکانے لگانے کے لئے ڈی واٹرنگ آپریشن شروع کردی گئی ہے جس میں جی ڈی اے، ضلعی انتظامیہ اور میونسپل کمیٹی گوادر اِس کی نگرانی کررہے ہیں لیکن متاثرہ علاقے مکین اب تک ڈی واٹرنگ آپریشن سے مطمئن نہیں۔



مزری کے جنگلات کو بچایا جا سکتا ہے

| وقتِ اشاعت :  


آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ہنرمند افراد کی بنائی ہوئی چیزوں کی نمائشی ہو رہی تھی۔ ایک اسٹال مزری سے بنے آئٹم کا تھا۔



” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “(ساتویں قسط)

| وقتِ اشاعت :  


کمبر تیزی سے سفر کرتے ہوئے سامی پہنچ گیا ،قلعے کے قریب بہت رش کش تھا ، طویل سفر کی وجہ سے کمبر کی مشکیزے کے پانی ختم ہوچکے تھے ، مشکیزہ بھرنے کے لیے کجھوروں کے باغ میں گیا وہاں کچھ خادم کام کررہے تھے ، کمبر نے خادموں سے سلام و دعا کرکے… Read more »



” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج ” (چھٹی قسط)

| وقتِ اشاعت :  


مہمان خانے میں کمبر آگ کے قریب بستر پہ لیٹا کبھی مکران کی بغاوت کے بارے میں سوچتا تھا کھبی ماہ گنج اور بلوچ خان کو یاد کرتا تھا ، شادی کے بعد پہلی بار کمبر ماہ گنج سے الگ ہوا تھا ، جب ماہ گنج ہفتوں بعد کچھ وقت کے لیے اپنے ماں کی… Read more »



جاہ ء ِ آھو میں “آھو” شکاریوں کے نشانے پر

| وقتِ اشاعت :  


بکری اڑی۔ سب بچے ہاتھ نیچے کیا کرتے تھے، کوا اڑا۔۔۔ سب کے ہاتھ اوپر۔ ہم سب نے کوئوں (بلوچی میں کلاگ یا گْراگ) کو اڑتے دیکھا اور کائیں کائیں کرتے سنا۔ پہاڑ ان کا مسکن ہوا کرتا تھا خوراک کی تلاش انہیں آبادی کی طرف دھکیل دیا کرتا تھا۔ پہاڑی کوے جسامت اور رنگت… Read more »



” میری کے گرتی ہوئی دیواروں کی گونج “

| وقتِ اشاعت :  


کمبر اور ماہ گنج ہر گزرتے دن ایک دوسرے کے مزید دیوانے ہوتے جارہے تھے ، کمبر اپنے والد کے ساتھ باغوں میں ہاتھ بٹھاتا تھا میری اور بلوچ سیاست پر مسلسل گہرا نظر بھی رکھا ہوا تھا ، شادی کے بعد انگریزوں کے خلاف لڑنے کے کمبر کی جنون ختم نہیں ہوا تھا لیکن مسلع مزاحمت کے لیے کوہی مناسب موقع نہیں مل رہا تھا ، وہ دن بھی آ گیا کہ ماہ گنج نے ایک بچے کو جنم دیا ، کمبر کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ، نام رکھنے والے دن گھر میں اجلاس ہوا سمندر خان نے مشورہ دیا کہ نصیر خان رکھ دو ، ماہ گنج نے کہا کہ مجھے چاکر نام بہت پسند ہے ،