گم شدہ جمہوریت

| وقتِ اشاعت :  


جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہی جا سکتی ہے۔ آمریت کے برعکس اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔



بن گوریان

| وقتِ اشاعت :  


ملکی سیاست کے ہوشربا اور پر کیف دھنیں سن سن کر کان پک گئے ہیں یہ ٹکنالوجی کا دور ہے اونٹ اور خچر کا زمانہ گزر چکا ،آج دنیا کے ایک سرے پر جو واقعہ رونما ہوتی ہے لمحوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود ہمارے سیاستدان اب بھی وہی راگ الاپ رہے ہیں جو نصف صدی پہلے پاکستانی عوام سنتے آرہے ہیں ایسے دلفریب نعرے لگانے والوں میں صوبہ بلوچستان کے لیڈر کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔بلوچستان میں دو انواع کے لیڈر پائے جاتے ہیں ایک طبقہ سرداراور نواب اور دوسرا خود کو قوم پرست کہتا ہے یہ دونوں طبقے قوم دوست نہیں ہیں نوابوں اور سرداروں کے علاقوں میں کہیں ڈھنگ کا کوئی اسکول یا اسپتال نظر نہیں آتا۔ ایسے کئی سردا راور نواب ہیں جو تین پشتوں سے اقتدار کے گھوڑے من کے مطابق دوڑاتے رہے لیکن ان کے علاقوں میں کوئی ڈسپنسری بھی نظر نہیں آتی۔یہ دونوں طبقے یعنی سردار نواب اور قوم پرست ہمیشہ مقتدرہ پر میزائلیں برساتے تو ہیں لیکن اصل میں دونوں مقتدرہ کے برخوردار ہیں ان دونوں طبقوں کو عوام سے کوئی دلچسپی نہیں شعور ان کا بڑا دشمن ہے ان کو فکر دامن گیرہے کہ شعور آگیا تو یہ سلسلہ نہیں چلے گا،اس لیے ہمیشہ الیکشن کے قریب آتے ہی عوامی مسیحا بننے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سنجیدہ فکر رکھنے والوں کی طرف سے انہیں دھیرے سے ہی صحیح لیکن سر گوشیوں میں سنائی ضرور دیتا ہے



منشیات اور اْس کی تباہ کاریاں

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان، جس کا نام سْن کر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اور اقوام میں گریویٹی کی سی ایک کشش پیدا ہوتی ہے اور کیوں نہ ہوں کیونکہ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جسے قدرت نے وہ سب کچھ عطا کیا ہے جو کسی ملک یا قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے تمام قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان، پاکستان کے دیگر صوبوں کی نسبت سب سے کم ترقی یافتہ ہے۔ بہترین سیاسی قیادت کا فْقدان، علمی شعور کی کمی اور اندرونی خلفشار کی وجہ سے بلوچستان کو اگر مسائلستان کہا جائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ مسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ تعلیم اور صحت کا فرسودہ نظام، روزگار اور معاش کے مستقل و مستند ذریعوں کا محدود ہونا ، ساحل اور میرین لائف کے تحفظ کا مسئلہ، جس سے بیشتر لوگوں کا معاش جْڑا ہوا ہے اور دورِ حاضر کا سب سے بڑا اور سنگین مسئلہ جس کی طرف توجہ دینا ہر ذی روح و ذی شعور انسان کا قومی، معاشرتی اور مذہبی فریضہ ہے وہ ” منشیات کی لعنت ” ہے۔



پاکستانی یونیورسٹیوں کے 75سال

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان بننے کے وقت، ملک کو لاہور میں پنجاب یونیورسٹی وراثت میں ملی، جو کہ ہندوستان راج کی 16 یونیورسٹیوں میں سے واحدتعلیمی درسگاہ تھی۔ 75 سال بعد، 120 سے زیادہ سرکاری طور پر تسلیم شدہ یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ تقریباً اتنی ہی تعداد میں غیر تسلیم شدہ ادارے جنہوں نے خود اپنے آپ کو تدریسی یونیورسٹی قرار دیا ہے وجود رکھتی ہیں۔ کالج کی تعداد 30-35 سے 1,500 یا اس سے زیادہ ہو گئی ہے لیکن ان سب کے باوجود ایسا لگتاہے کہ اعلیٰ (معیاری) تعلیم ناپید ہو چکی ہے ۔



آہ میرا بلوچستان ڈوب گیا

| وقتِ اشاعت :  


سیلاب سے رشتہ ہم بلوچستان کے باسیوں کا بہت پرانا ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے یہ سیلاب آتے جاتے دیکھے ہیں کبھی دریا سندھ کا پانی ہمیں ڈبوتا ہے تو کبھی ہمیں ناڑی بینک، کبھی دریائے مولا تو کبھی بلوچستان کے ناکارہ سیم شاخ ہمیں پانی برد کرتے ہیں۔ ہمارے پیارے بلوچستان کے لوگوں کا گھر بار، اناج سب کچھ یہ پانی چھین لیتا ہے۔



افغانستان: سیاہ رجعت کا ایک سال

| وقتِ اشاعت :  


الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں دو دہائیوں میں دو ہزار اَرب ڈالر کے عسکری اخراجات کیے۔ اس کے باوجود امریکہ کو افغانستان سے آبرومندانہ انداز میں بھاگنے کے لیے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنا پڑے۔ طالبان کے ساتھ قطر میں ہونے والا معاہدہ دراصل امریکہ کی جانب سے اعتراف شکست تھا۔ وہ تمام تر مقاصد میں بُری طرح ناکام ہوئے۔ نہ تو وہ اسلامی بنیاد پرستی کا خاتمہ کرسکے، نہ افغانستان کی تعمیر نو اور نہ ہی ایران، روس اور چین کو قابو کر سکے۔ طالبان کے ساتھ ہونے والے تمام تر مذاکرات کے دوران اشرف غنی کی حکومت کو امریکہ نے اس سارے عمل سے بے خبر یا دور رکھا جو امریکیوں کی بیس سال میں تعمیر کی گئی افغان حکومت کے بارے ان کے حقیقی رویوں اور وقعت کی غمازی کرتا ہے۔کیونکہ ان کو افغان حکومت کی حیثیت اور طاقت کا پتہ تھا۔



افغانستان: سیاہ رجعت کا ایک سال(1)

| وقتِ اشاعت :  


تقریباً ایک سال پہلے افغانستان میں اشرف غنی کی مغربی حمایت یافتہ حکومت شرمناک انداز میں ڈھے گئی اور طالبان کابل میں داخل ہوئے۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے اور طالبان کی حکومت کو ختم کرکے بیس سال کی بے تحاشا عسکری اور دیگر اخراجات اور امریکی سامراج اوران کے اتحادی مغربی ممالک کی حمایت سے شروع کیا جانے والا جمہوری تجربہ بالآخر اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ نام نہاد جمہوری ریاست جس کی قیادت کی باگ ڈور تمام تر سابقہ جرائم پیشہ جہادیوں کے ہاتھوں میں تھی اور جس پر مغربی دنیا جمہوریت، انسانی حقوق اور خواتین کی خود مختاری کے نام پر ناز کرتی تھی تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی۔



حکومت مظلوم بلوچوں کی آہ کب سنے گی؟

| وقتِ اشاعت :  


ظلم کی مزاحمت انسان ہی نہیں ہر جاندار کی فطرت کا حصہ ہے۔ معمولی چیونٹی کو بھی تکلیف پہنچانے، ہلاک کرنے یاراستے سے ہٹانے کی کوشش کی جائے تو وہ مزاحمت کرتی ہے۔ افراد کی طرح قوموں کی بقا کا انحصار بھی مظالم کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پر ہوتا ہے۔ ہر ظالم مظلوموں سے مکمل خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے اور اْس سے کم پر راضی نہیں ہوتا۔ لیکن ظلم و سفاکیت کے مقابلہ میں خود سپردگی کا رویہ اختیار کرنے والی قوم کا مقدر یہی ہوتا ہے



ایرانی تیل کی خود ساختہ قیمت اور بارڈر مافیا ٹائیکون

| وقتِ اشاعت :  


گزشتہ چار پانچ مہینوں سے پورے مکران میں ایرانی تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے تمام لوگوں کو متاثر کیا ہوا ہے۔عالمی سطح پر ڈالر کے اْتار چھڑاؤ کی وجہ سے پاکستانی تیل کی قیمتوں میں جونہی اضافہ ہوتا ہے ایرانی تیل کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں یا بڑھائی جاتی ہیں



سانحہ8اگست اور اس سے جڑے المیے

| وقتِ اشاعت :  


8اگست 2016ء￿ ، بلوچستان کے سب سے بڑے اور مرکزی شہر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے بیچوں بیچ سول سنڈیمن ہسپتا ل میں پیش آنے والا ایک خونیں واقعہ جسے آج چھ برس پورے ہورہے ہیں۔آج ہی کے دن کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر اور ملک بھر خون آلود اداسی غم اور سوگ میں ڈوب گیا تھا۔جب ’’خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہوا۔ایک ایسا دن جب صوبے کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع یا قصبہ ہو جس میں کوئٹہ سے تابوت نہ بھیجاگیا ہو۔ روشنیوں کے شہر کراچی اور کوئٹہ سے اندرون بلوچستان تابوت بھجوانے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ کافی عرصے سے یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اندھے واقعات ، بہرے حکمران اور کمزور حافظوں کے حامل معاشروں میں ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں۔مگرآٹھ اگست کو تو حد ہی ہوگئی۔اس دن شاید ہی یہاں ایسی کوئی آنکھ بچی ہو جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ایک ایسا دن جب دن دیہاڑے شب خون مارا گیا ،جب عقل و شعور کی ایک کھڑی فصل پل بھر میں کاٹ دی گئی جب60گھروں کے روشن چراغ بجھا نے کے لئے ایک ایسی باد صر صر چلی کہ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔ صوبے کے مرکزی شہر اور دارلحکومت کوئٹہ کے وسط میں قائم صوبے کا قدیم سول سنڈیمن ہسپتال اس وقت معصوم انسانوں کے مقتل میں بدل گیا جب بلال انور کاسی کی میت لینے کے لئے ہسپتال آئے وکلاء￿ اور ان کی کوریج کے لئے موجود صحافیوں کے بیچ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا۔