سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان میں سرکاری شعبوں کے بارے میں بہت کچھ لکھاجا سکتاہے کیونکہ یہ سرکاری ادارے کرپشن اوربد انتظامی سے اس قدر تباہی کے دہانے پر پہنچادئیے گئے ہیں کہ اب ان کی حالت بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی۔سرکاری طورپر تعمیرات سے لے کر ادویات کی خریداری‘ سڑکوں کی پختگی سمیت ہر شعبہ پر نظر دوڑائیے تو برسوں کرپشن کے باعث تباہی و بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ارباب اختیار صرف اور صرف اخبارات یا ٹیلی ویژن کی حد تک ”اچھا ہے اچھا ہے کررہے ہیں“ خود کو بری الذمہ قرار دے کر تمام گند کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں پر ڈالتے نظر آتے ہیں۔



بلوچستان میں بے روزگاری کا آسیب

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان ملک خداداد پاکستان کا وہ پسماندہ صوبہ ہے جو معدنی دولت سے مالامال ہونے کے سبب پوری دنیا میں اپنی معدنیات کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن اس کے مکین خصوصاً نوجوان ایک عرصے سے بے روزگاری سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں محکمہ پولیس نصیر آباد کی جانب سے مختلف آسامیوں کی چند پوسٹوں کے لئے ہزاروں نوجوانوں کی قسمت آزمائی کی خبریں شائع ہوئیں جس میں الزام لگایاگیا کہ اس میں موجودہ اور سابقہ وزراء کی اقربا پروری کی شکایات موصول ہوئیں جانبداری اس قدر کہ ایک معذور شخص کو بھی سفارش پر لیا گیا،ہوسکتا ہے کہ یہ معذوروں کے کوٹہ پر ملازمت کے لئے لیا گیا۔



کوئٹہ شہر کو وسعت دینے کی ضرورت

| وقتِ اشاعت :  


ملک کے دیگر صوبوں کے دارالحکومت کی طرح کوئٹہ جو چند لاکھ افراد کے لئے بنایا گیا تھا اب اس میں لاکھوں افراد نے کوئٹہ شہر کے گردونواح میں رہائشی اسکیمات تعمیر کرکے اس شہر کی آبادی میں اچانک اضافہ کردیا جس کے سبب اس شہر کی قائم پرانی سڑکیں اب شہرکی ٹریفک کا بوجھ سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ دن کے اوقات میں سریاب روڈ سے شہر تک آتے آتے دو گھنٹے سے زائد کا عرصہ لگ جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ سریاب سے جناح روڈ تک شہر کی سڑک پر بے پناہ رش رہتاہے خصوصاً یونیورسٹی چوک‘ سدا بہار ٹریمینل کے نزدیک‘ اے جی آفس چوک‘ سول ہسپتال چوک سمیت اسپنی روڈ سے بے نظیرپل‘ وائٹ روڈ چوک پر دن کے اوقات میں ٹریفک کی روانی شدید متاثر نظر آتی ہے۔



بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو دو رویہ بنانے کی ضرورت

| وقتِ اشاعت :  


ملک کا سب سے بڑا یعنی 47فیصدرکھنے والا صوبہ بلوچستان کو دیگر صوبوں کی نسبت جی ٹی اور موٹر ہائی ویز سے مکمل طورپر محروم رکھا جارہا ہے۔ کوئٹہ تا کراچی‘ کوئٹہ تاتفتان‘ کوئٹہ تا چمن‘کوئٹہ تا ژوب ڈیرہ اسماعیل خان کوئٹہ تا جیکب آباد‘ کوئٹہ تا تربت کی شاہرائیں جن پر آج کے اس تیز رفتار دور میں ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں ایک صوبے سے دوسرے صوبے کے لئے محو سفر ہیں جن میں مسافر اور مال بردار گاڑیاں بھی بڑی تعداد میں سفر کرتی ہیں۔ جب سے ملک کے دیگر صوبوں میں جی ٹی روڈز کے ساتھ ساتھ موٹر ہائی ویز بنائے گئے۔



سوئی گیس، سیندک، ریکوڈک اور بلوچستان کی تقدیر؟

| وقتِ اشاعت :  


جب مچھ‘ کوہلو‘ سوئی گیس‘ سیندک اور ریکوڈک بلوچستان کی تقدیر بدل نہ سکے تو سی پیک بلوچستان کی تقدیر کیسے بدلے گا؟ سوشل میڈیا پر درج بالا جملہ نظروں کے سامنے سے گزرا جو یقیناً کسی دل جلے بلوچستانی نے تحریر کی ہوگی۔ اس تحریر کے پیچھے ملک خداداد پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کی تلخ یادیں وابستہ ہیں جن سے بلوچستان کے عوام گزرے ہیں اور اب بھی گزر رہے ہیں۔یہاں پر میں چند مثالیں رقم کررہا ہوں اس امید کے ساتھ نہیں کہ میری تحریر سے وفاقی حکومت کے رویے میں اچانک تبدیلی آئے گی اور وہ بلوچستان کے عوام کے لئے شہد اور دودھ کی نہریں بہا دے گی۔



قوم سیاسی اور معاشرتی گراوٹ کاشکار کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان پیس فورم کے چئیرمین نوابزادہ حاجی میر لشکری رئیسانی نے کوئٹہ میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاست اور ارتقاء کے عمل کو ایک خاص مقصد کیلئے روکا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی گراوٹ کا شکار ہے اب لوگ سیاست معاشرتی امور اورمعیشت… Read more »



بلوچستان میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن لوٹ کا لائسنس کون دیتا ہے۔

| وقتِ اشاعت :  


برطانوی دور کی ایک کہاوت ہے فرنگیوں نے دو چور دوستوں ایک ہندو اور مسلمان کو گرفتار کیا، بیس بیس کوڑے مارنے کا حکم ہوا، کوڑے مارنے سے پہلے قیدیوں سے خواہش معلوم کی گئی ہندو قیدی نے کہا کہ مجھے کوڑے لگاتے وقت قمیض نہ اتاری جائے تاکہ درد کی شدت میں کمی ہو،پانچ کوڑے کم لگائے جائیں ایسا ہوا۔ جب مسلمان قیدی سے خواہش پوچھی گئی تو کہا مجھے 25 کوڑے لگائیں،فرنگی پریشان ہو گیا ہندو قیدی نے کم کی درخواست کی توزیادہ کا خواہشمند ہے تو مسلمان قیدی نے کہاکہ میری پیٹھ پر ہندو قیدی کو باندھاجائے۔ فرنگیوں نے وعدے کے مطابق آخری خواہش کا احترام کیا۔



بلوچستان کے طلباء کیلئے تعلیمی مسائل و مشکلات کیوں؟

| وقتِ اشاعت :  


بلوچستان کے مسائل اس قدر ہیں کہ ان پر ہر روز کالم لکھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مسائل ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ایک مسئلہ کے حل کی نوید حکومتیں سنادیتی ہے تو نصف درجن کے قریب مسائل پر توجہ ہی نہیں دی جاتی۔ عوام ایک مسئلہ کے حل کی نوید سن کر پھولے نہیں سماتے کہ کم از کم کسی حکومتی شخصیت کے منہ سے یہ خوشخبری تو ملی کے اس اکلوتے مسئلے کے حل سے بلوچستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہوگئیں پھر لوگ یہ مسئلہ بھول جاتے ہیں حکمران بھی اپنی اپنی ترجیحات کی جانب اپنی توجہ مبذول کرتے ہیں اللہ اللہ خیر سلا، آزادی کے اندرونی صفحات میں محترم عتیق صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ صحافت کے طالب علموں کو پڑھایاجاتا ہے کہ حکومتیں اپنی کوتائیاں چھپانے کیلئے جھوٹ بولتی ہیں اس لئے صحافی کی اولین ذمہ داری لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔



حب شہر کا خستہ حال پل

| وقتِ اشاعت :  


یوں تو بلوچستان بھر کی سڑکوں کے بارے میں لکھا جاسکتا ہے لیکن سوشل میڈیا پر ایک شخص نے حب کو کراچی سے ملانے والے پل کی تصویر دے کر اس کی مخدوش صورت حال بارے بتایا کہ حالیہ سیلابی ریلوں نے اس پل کو کافی حد نقصان پہنچا یاہے اسکے پلرزتصویر میں دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح سے جھک گئے ہیں ایسے میں آفرین ہے نیشنل ہائی وے حکام پر جنہوں نے اس کی نشاندہی سے ہی آنکھیں ا س طرح موندھ لی ہیں جس طرح کتوبر بلی کو دیکھ کر اپنی آنکھیں بند کرتا ہے۔ اس طرح نیشنل ہائی وے حکام کی غفلت کاجس قدر ماتم کیا جائے کم ہے۔



جام صاحب!خدارا کچھ کیجئے؟

| وقتِ اشاعت :  


تحریک بحالی بولان میڈیکل کالج کی جانب سے ایک مرتبہ پھر گزشتہ روز سے احتجاجی بھوک ہڑتالی کیمپ سنبل چوک نزد گورنر وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ قائم کیا گیا ہے۔اس سے قبل بھی تحریک کی جانب سے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے باہر کیمپ کئی روز تک جاری رہا،پھر وزراء کی جانب ان سے ملاقاتیں کی گئیں،تسلی وتشفی دی گئی، اس کے بعد بلوچ طالبات کی گرفتاری اور انہیں پولیس تھانہ کے لاک اپ میں قید رکھنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر بلوچستان کے عوام نے دیکھیں جو یقیناً انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت بات تھی کہ ان کے ساتھ ہمارے پولیس افسران نے کس طرح بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔