دنیا بدل رہی ہے

| وقتِ اشاعت :  


کورونا وبا نے جہاں دنیا کو وبائی امراض سے لڑنا سکھایا ہے تو وہیں اس آفت نے دنیا کے زرعی،مالدار اور انڈسٹریل ملکوں کو خود کفیل ہونے کا موقع بھی فراہم کردیا ہے بظاہر ہم دنیا والوں کو مہنگائی میں اضافے کی وجہ کورونا وبا نظر آرہی ہے لیکن حالیہ واقعات اور مشاہدات کچھ الگ ہی کہانی سناتے ہیں تو چلیں اس کہانی کی طرف چلتے ہیں ۔



کراچی اور ہماری لاچارگی

| وقتِ اشاعت :  


کراچی جہاں میں کبھی علاج کے سوا کسی غرض سے نہیں گیا۔اس ملک کے لحاظ سے بہترین انتظامات تھے۔ایمرجنسی میں مریضوں کو ٹھونسا جارہا تھا۔ ہم نے بھی اپنے مریض کو ایک بستر پر لٹا دیا اور ایمرجنسی ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہے کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ آ گئیں اور بڑی خوش اسلوبی سے… Read more »



یوکرائن میں کیا ہورہا ہے

| وقتِ اشاعت :  


روس اورکرائن جنگ کو ایک سال مکمل ہوچکا۔کیا ہوا اور مزید کیا ہونے کے امکانات ہیں. آئیے ایک جائزہ لیتے ہیںلیکن اس سے پہلے جاننے کی کوشش کرینگے کہ کیا وجہ ہے کہ روس نے یوکرائن پر یہ جنگ مسلط کی ہے؟



بلوچی زبان کے نامور ادیب و دانشور سید ظہور شاہ ہاشمی کی یادیں کھنڈرات میں تبدیل

| وقتِ اشاعت :  


یہ علاقہ جو کسی ویرانے اور کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے، یہ بلوچی زبان کے نامور ادیب، شاعر، محقق و دانشور سید ظہور ہاشمی کا آبائی گھر ہے جو گوادر پورٹ اور سی پیک شاہراہ سے بس چند قدم کے فاصلے پر واقع ہے۔ موسمی تبدیلیوں اور سی پیک شاہراہ پر بھاری مشینریز کے کام کی وجہ سے یہ خستہ حال اور بوسیدہ مکان اب مکمل کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے۔ مقامی انتظامیہ کی نااہلی اور بلوچ قوم کی نادلگوشی کی وجہ سے یہ آثار بھی شاید چند مہینوں کے لیے باقی رہ جائیں اور بلوچ قوم کی اس عظیم ہستی کی یادیں ہمیشہ کے لیے فناہ ہوجائیں۔



سکول داخلہ آگاہی مہم اور چائلڈ لیبر

| وقتِ اشاعت :  


محکمہ تعلیم ہر سال سکول داخلہ آگاہی مہم کے نام پر واک کا اہتمام کرتا ہے واک کا مقصد شعور آگاہی پھیلانا ہے، ان بچوں کے بارے میں جو سکولز سے باہر ہیں سرد علاقوں کے سکولز موسم سرما کی تعطیلات کے بعد کھل گئے ہیں اور دو ہفتے گزرنے کو ہے ابھی تک طلباء کو درسی کتب تک دستیاب نہیں ماسوائے چند ایک کتب کے باقی ابھی تک غائب ہیں اور بچے صرفِ کھیل کھیل میں تعلیم حاصل نہیں کرسکتے بلکہ پڑھائی کے لیے نصابی سرگرمیاں اہم ترین جز ہیں جو بچے سکولز سے باہر ہیں ان بچوں کے بارے میں آج تک کسی نے سنجیدگی سے نہیں سوچا ہے جو چائلڈ لیبر کے نام پر ورکشاپ، گیراج، گھروں ،ہوٹلز اور دیگر جگہ اجرت پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں ویسے تو چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے ۔



مثبت بلوچستان

| وقتِ اشاعت :  


قارئین کرام میری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کے ان اوجھل پہلوئوں پر بات کر وں کہ جنہیں شاذ و نادر پرنٹ یا الیکٹرونک میڈیا میں اجاگر کیا جاتا ہے۔ جی ہاں آج کے کالم کے عنوان کو دیکھتے ہوئے تھوڑی سی کوشش کرونگا کہ اس عنوان کی مطابقت بلوچستان کے سبی میلے سے کیا بن سکتی ہے۔ سبی میلہ ایک میلہ ہی نہیں بلکہ سیاسی، سماجی، قبائلی، تہذیبی اور ثقافتی تفریقات کو ختم کرکے باہمی یگانگت، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی میں تبدیل کرنے کی ایک اہم ثقافت بن چکا ہے۔ سبی میلے کو اگر تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ میلہ 14 ویں صدی سے بلوچستان کی یکجہتی کی علامت سمجھاجاتا ہے جب میر چاکر خان نے 1496 میں قبائلی تنازعات کو ختم کرنے کے لئے ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا- میر چاکر خان رند جنہیں بلوچ قوم کا ہیرو کہا جاتا ہے 1468 کے اوائل میں کیچ میں پیدا ہوئے جنہوں نے برصغیر کو فتح کرنے کے لئے مغل بادشاہ ہمایوں کی مدد کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کروایا۔ میر چاکر خان رند کی زندگی اپنی بلوچ قوم کے لئے جنگوں سے بھری پڑی ہے جہاں انہوں نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ وہ رند قبیلے کے سردار تھے اور انہوں نے لاشاریوں کے ساتھ 35 سال کی جنگ میں انہیں شکست سے دوچار کیا تو انہوں نے شیر شاہ سوری کے خلاف مزاحمت کی جن میں انہیں شکست ہوئی اور شکست کے بعد میر چاکر خان رند نے پنجاب میں رہائش اختیار کی جہاں وہ 1565 میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ قبائلی تنازعات کے حل کے لیے شروع ہونے والا سبی اجتماع آہستہ آہستہ ایک تہوار کی شکل اختیار کرلی جس میں شامل ہونے کے لئے طول و عرض سے تقریبا ً5 لاکھ سیاح شریک ہوتے ہیں۔ اس میلے کو مزید تقویت تب ملی جب برٹش راج نے سبی پر قبضہ کیا اور تب کی وہ کاوشیں کہ جس سے سبی کو بلوچستان کے لئے سرمائی مرکز بنانا تھا کو برٹش راج نے اس قدیم قبائلی جرگے کو دربار کے نام سے منسوب کردیا جسکے لئے اس وقت جرگہ حال بھی تعمیر کیا گیا جس کو دیکھنے کے لئے آج تک سیاح آتے ہیں۔ تب سے لیکر پاکستان کی آزادی تک یعنی سن 1947 تک انگریزوں نے آخری مرتبہ اس جشن سبی کو منایا۔ آزادی کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح (رح) نے صحت کی خرابی کے باوجود فروری 1948 میں پہلی مرتبہ اس جشن کا افتتاح کیا جس کی وجہ سے نہ صرف اس میلے نے ملک گیر شکل اختیارکی بلکہ قائد نے یہ بھی باور کرایا کہ بلوچستان سے وہ خلوص کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔



سیاست درباں سے ڈر گیا

| وقتِ اشاعت :  


یہ ایک تاریخی سچ ہے کہ دنیا کے مایہ ناز ترقی یافتہ ممالک ایک دور میں بڑی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن وہاں جان ایف کینڈی اور لوتھر کنگ جیسے انسان پیدا ہوئے تو تاریکی چٹ گئی اور ہر سو اجالا بکھر گیا۔ یہودیوں اور کافروں کے ملک میں جانوروں تک کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے ہاں یہ بات نہیں کہ وہاں حادثات نہیں ہوتے لیکن ان کا ردعمل بھی دیدنی ہوتا ہے۔ مملکت خداداد کی بھاگیں ایسے لوگوں نے تھامیں ہیں یا انہیں تھما دی گئیں ہیں جنہیں منزل کا علم نہیں ۔



“مہران بینک سکینڈل” رضی فارم اور سردار فاروق خان لغاری

| وقتِ اشاعت :  


انسان فطرتاً کچھ ایسی خصوصیات کا حامل ہے کہ وہ حال کو دیکھتا ہے اور نہ ماضی کو یاد کرتا ہے اور نہ ہی اس کو مستقبل کی کوئی فکر ہوتی ہے۔وقتی اور سطحی فیصلے کرکے آگے نکلنے کی کوشش کرتا ہے۔نوے کی دہائی میں جب پاکستانی سیاست بھونچال کا شکار تھی اس دوران سن 1993ء میں عام انتخابات ہوئے۔اس دوران مہران بینک سکینڈل سامنے آیا اور کافی عرصہ پاکستانی سیاست میں زیر بحث رہا۔ ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان نے اس بارے سپریم کورٹ میں ایک رٹ بھی دائر کی تھی جس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ مہران بینک سے کروڑوں روپے نکلوا کر چیدہ چیدہ سیاستدانوں میں تقسیم کیے گئے تھے تاکہ محترمہ بینظیر بھٹو کی انتخابی مہم کو نقصان پہنچایا جا سکے اور انہیں انتخابات میں شکست دلوائی جا سکے۔



پاکستان کی نئی نسل کے نام

| وقتِ اشاعت :  


پاکستان کو آزاد ہوئے 75 سال ہو گئے اور اِن75 سالوں میں ہم نے بحیثیتِ قوم کیا پایا اور کیا کھو یا، اِسکا اندازہ چند سوالوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ جیسے کہ